Mutaliya-e-Quran - Aal-i-Imraan : 143
وَ لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَلْقَوْهُ١۪ فَقَدْ رَاَیْتُمُوْهُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ۠   ۧ
وَلَقَدْ : اور البتہ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ : تم تمنا کرتے تھے الْمَوْتَ : موت مِنْ قَبْلِ : سے قبل اَنْ : کہ تَلْقَوْهُ : تم اس سے ملو فَقَدْ رَاَيْتُمُوْهُ : تو اب تم نے اسے دیکھ لیا وَاَنْتُمْ : اور تم تَنْظُرُوْنَ : دیکھتے ہو
تم تو موت کی تمنائیں کر رہے تھے! مگر یہ اُس وقت کی بات تھی جب موت سامنے نہ آئی تھی، لو اب وہ تمہارے سامنے آ گئی اور تم نے اُسے آنکھوں دیکھ لیا
[وَلَـقَدْ کُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ : اور بیشک تم لوگ تمنا کرچکے تھے ] [الْمَوْتَ : موت کی ] [مِنْ قَـبْلِ : اس سے پہلے اَنْ : کہ ] [تَلْقَوْہُ : تم لوگ سامنے آتے اس کے ] [فَقَدْ رَاَ یْتُمُوْہُ : تو تم لوگ دیکھ چکے اس کو ] [وَ : اس حال میں کہ ] [اَنْتُمْ : تم لوگ ] [ تَنْظُرُوْنَ : آنکھوں دیکھتے ہو ] نوٹ : آیت 140 میں ایام کو گردش دینے کا ایک مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جان لے کہ ہم میں سے کون سچ مچ ایمان لایا ہے۔ پھر آیت 142 میں ایک دوسرے پیرائے میں اس کا اعادہ کیا گیا کہ جنت میں کوئی داخل نہیں ہوگا جب تک اللہ تعالیٰ یہ نہ جان لے کہ کس نے اس کی راہ میں جدوجہد کی اور کون ثابت قدم رہا۔ اب سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو سب کچھ جانتا ہے ‘ پھر اس کے جان لینے کا کیا مطلب ہے۔ اس بات کو سمجھ لیں۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ کے لیے عالم الغیب کے الفاظ آئے ہیں ‘ حالانکہ اللہ کے لیے تو غیب ہے ہی نہیں ‘ اس کے لیے تو ہر چیز ہر لمحہ الشہادۃ ہے۔ اس لیے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے عالم الغیب کے الفاظ کا استعمال ہماری نسبت سے کیا جاتا ہے ‘ یعنی اللہ تعالیٰ اس کا بھی جاننے والا ہے جو ہمارے لیے غیب ہے۔ اسی طرح سے آیات زیر مطالعہ میں اور قرآن مجید میں دیگر مقامات پر ‘ جہاں کہیں اللہ تعالیٰ کے لیے جان لینے کے الفاظ آئے ہیں ‘ وہ ہماری نسبت سے ہیں اور ان کا مطلب یہ ہے کہ جس بات کو ہم نہیں جانتے انہیں اللہ تعالیٰ ظاہر کر دے ‘ کھول دے یا ریکارڈ پر لے آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص کے کچھ ظاہری اقوال یعنی دعوے اور وعدے ہوتے ہیں اور کچھ ظاہری اعمال ہوتے ہیں ‘ لیکن ان کے پیچھے کچھ باطنی کیفیات بھی ہوتی ہیں جن سے وہ شخص خود بھی اکثر اوقات پوری طرح باخبر نہیں ہوتا ‘ لیکن اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ قیامت میں فیصلہ کرتے وقت وہ اقوال و اعمال بھی شامل کیے جائیں گے جو ریکارڈ پر آئے اور ان کو مٹایا نہیں گیا ‘ یعنی عفو کی درخواست نہیں کی گئی۔ لیکن ان کے ساتھ باطنی کیفیات بھی شامل کی جائیں گی۔ اسی لیے بتادیا کہ جب لوگوں کو قبروں سے نکالا جائے گا تو جو کچھ ان کے سینوں یعنی جی میں تھا وہ بھی حاصل کرلیا جائے گا۔ (العٰدیٰت :9‘10) باطنی کیفیات کن عناصر پر مشتمل ہوتی ہیں ان کی وضاحت بہت مشکل ہے اور انسان کے تمام جذبات و احساسات کو الفاظ کا جامہ پہنا ناممکن نہیں ہے۔ لیکن قرآن اور حدیث میں دو ایسے عناصر کی راہنمائی موجود ہے جو انسانی ذہن کی گرفت میں آسکتے ہیں۔ ایک انسان کا حقیقی نظریہ اور عقیدہ جو بعض اوقات اس کے ظاہر سے مختلف ہوتا ہے اور دوسرے اس کی نیت۔ باطنی کیفیات کی اصل ضرورت تو آخرت میں پڑے گی لیکن کبھی کسی فرد یا کسی اجتماعیت کے مفاد کا تقاضا ہوتا ہے کہ ان کی باطنی کیفیات میں سے کسی عنصر کو ظاہر کردیا جائے ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے جب ہماری اس ضرورت کو پورا کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے لیے طریقہ کار (procedure ) وہ ہے جسے ہم لوگ آزمائش کہتے ہیں۔ میدان احد میں مسلمانوں کی فتح کا شکست میں تبدیل ہوجانا بھی اسی طریقۂ کار کے تحت تھا تاکہ آئندہ مسلمان کوئی منصوبہ بندی کرتے وقت صرف افراد کی گنتی کو سامنے نہ رکھیں بلکہ ان میں باطنی کیفیات کے مختلف ہونے کی گنجائش بھی رکھیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مدینہ منورہ میں رسول اللہ ﷺ نے دو مرتبہ مردم شماری کرائی تھی ‘ اس کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔ پہلی مردم شماری میں عورتوں اور بچوں سمیت مسلمانوں کی کل تعداد 500 تھی اور دوسری میں 1500 تھی۔ آیت 141 میں ” مَحَّصَ “ کا ترجمہ ہم نے ” نکھارنا “ کیا ہے۔ اس کا مفہوم بھی یہی ہے کہ باطنی کیفیات میں اگر کہیں کوئی کمی ‘ خامی یا کجی رہ گئی ہے تو اسے دور کردیا جائے۔.
Top