Mutaliya-e-Quran - Aal-i-Imraan : 24
ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ١۪ وَّ غَرَّهُمْ فِیْ دِیْنِهِمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ
ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّھُمْ : اس لیے کہ وہ قَالُوْا : کہتے ہیں لَنْ تَمَسَّنَا : ہمیں ہرگز نہ چھوئے گی النَّارُ : آگ اِلَّآ : مگر اَيَّامًا : چند دن مَّعْدُوْدٰت : گنتی کے وَغَرَّھُمْ : اور انہٰں دھوکہ میں ڈالدیا فِيْ : میں دِيْنِهِمْ : ان کا دین مَّا : جو كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ : وہ گھڑتے تھے
ان کا یہ طرز عمل اس وجہ سے ہے کہ وہ کہتے ہیں "آتش دوزخ تو ہمیں مس تک نہ کرے گی اور اگر دوزخ کی سزا ہم کو ملے گی بھی تو بس چند روز" اُن کے خود ساختہ عقیدوں نے اُن کو اپنے دین کے معاملے میں بڑی غلط فہمیوں میں ڈال رکھا ہے
[ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ : یہ اس سبب سے کہ انہوں نے ] [قَالُوْا : کہا ] [لَنْ تَمَسَّنَا : ہرگز نہیں چھوئے گی ہم کو ] [النَّارُ : آگ ] [اِلَّآ : مگر ] [اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ : چند گنے ہوئے دن ] [وَّغَرَّ : اور دھوکا دیا ] [ہُمْ : ان کو ] [فِیْ دِیْنِہِمْ : ان کے دین میں مَّا : اس نے جو ] [کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ : وہ لوگ گھڑا کرتے تھے ] نوٹ : لفظ ” یَفْتَرُوْنَ “ کے متعلق ایک بات نوٹ کرلیں۔ مادہ ”ر ی “ سے باب افتعال میں یہ جمع مذکر غائب کا صیغہ اصلاً ” یَفْتَرِیُوْنَ “ تھا جو قاعدے کے مطابق تبدیل ہو کر ” یَفْتَرُوْنَ “ استعمال ہوتا ہے اور یہ قرآن مجید میں 17 مقامات پر آیا ہے۔ جبکہ مادہ ”ت ر “ (ن) سے ثلاثی مجرد میں جمع مذکر غائب کا صیغہ ” یَفْتُرُوْنَ “ آتا ہے جس کے معنی ہیں تھکنا اور یہ قرآن مجید میں صرف ایک جگہ (الانبیائ :20) آیا ہے۔ ان دونوں میں فرق ” تا “ کی فتحہ اور ضمہ سے کیا جاتا ہے۔ اس فرق کو ذہن نشین کرلیں۔
Top