Mutaliya-e-Quran - Aal-i-Imraan : 46
وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ
وَيُكَلِّمُ : اور باتیں کریگا النَّاسَ : لوگ فِي الْمَهْدِ : گہوارہ میں وَكَهْلًا : اور پختہ عمر وَّمِنَ : اور سے الصّٰلِحِيْنَ : نیکو کار
لوگوں سے گہوارے میں بھی کلام کرے گا اور بڑی عمر کو پہنچ کر بھی، اور وہ ایک مرد صالح ہوگا"
[وَیُکَلِّمُ : اور وہ کلام کریں گے ] [النَّاسَ : لوگوں سے ] [فِی الْمَهْدِ : گہوارے میں ] [وَکَہْلاً : اور ادھیڑ عمر ہوتے ہوئے ] [وَّمِنَ الصّٰلِحِیْنَ : اور (وہ ہوں گے) صالحین میں سے ] نوٹ : یہاں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے دو معجزوں کا ذکر ہے۔ ایک یہ کہ وہ گہوارے میں لوگوں سے کلام کریں گے۔ دوسرا یہ کہ ادھیڑ عمری کی حالت میں کلام کریں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ دودھ پیتے بچے کا کلام کرنا تو معجزہ ہے ‘ لیکن ادھیڑ عمری میں تو ہر شخص کلام کرتا ہے۔ اس کو معجزے کے طور پر بیان کرنے کا کیا مطلب ہے ؟ یہ بات سب مانتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ کے عقیدہ کے مطابق پھانسی دیے جانے کے وقت اور اسلامی عقیدے کے مطابق آسمان پر اٹھائے جانے کے وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عمر 30 اور 35 سال کے درمیان تھی۔ اس طرح وہ ادھیڑ عمر کو پہنچے ہی نہیں۔ اب یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں اور ادھیڑ عمر کو پہنچیں۔ اس لیے جس طرح ان کا بچپن کا کلام معجزہ تھا اسی طرح ادھیڑ عمری کا کلام بھی معجزہ ہوگا۔ (معارف القرآن سے ماخوذ)
Top