Mutaliya-e-Quran - Aal-i-Imraan : 95
قُلْ صَدَقَ اللّٰهُ١۫ فَاتَّبِعُوْا مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا١ؕ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں صَدَقَ : سچ فرمایا اللّٰهُ : اللہ فَاتَّبِعُوْا : اب پیروی کرو مِلَّةَ : دین اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم حَنِيْفًا : حنیف وَمَا : اور نہ كَانَ : تھے مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
کہو، اللہ نے جو کچھ فرمایا ہے سچ فرمایا ہے، تم کو یکسو ہو کر ابراہیمؑ کے طریقہ کی پیروی کرنی چاہیے، اور ابراہیمؑ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا
[قُلْ : آپ ﷺ کہیے ] [صَدَقَ : سچ کہا ] [اللّٰہُ : اللہ نے ] [فَاتَّبِعُوْا : پس تم لوگ پیروی کرو ] [مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ : ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کی ] [حَنِیْفًا : یکسو ہو کر ] [وَمَا کَانَ : اور وہ نہیں تھے ] [مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ : شرک کرنے والوں میں سے ] ب ر ک بَرَکَ (ن) بُرُوْکًا : غیر حسی خیر اور بھلائی والا ہونا۔ بَرَکَۃٌ (اسم ذات) : غیر حسی خیر اور بھلائی ‘ برکت (جو خیر اور بھلائی حواسِ خمسہ کے دائرے کے باہر ہو اور محسوس نہ کی جاسکے ‘ اسے برکت کہتے ہیں۔ اردو میں بھی برکت ہی استعمال ہوتا ہے ‘ کوئی دوسرا ہم معنی لفظ نہیں ہے) ۔ { رَحْمَتُ اللّٰہِ وَبَرَکٰتُہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِط } (ھود :73) ” اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں تم لوگوں پر ہیں ‘ اے اس گھر والو۔ “ بَارَکَ (مفاعلہ) مُبَارَکَۃً : کسی کو برکت دینا ‘ کسی پر برکت اتارنا۔ { وَجَعَلَ فِیْھَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِھَا وَبٰرَکَ فِیْھَا } (حٰمٓ السجدۃ :10) ” اور بنائے اس (زمین) میں بھاری پہاڑ اس کے اوپر سے اور برکت دی اس میں۔ “ { وَبٰرَکْنَا عَلَیْہِ وَعَلٰی اِسْحٰقَ } (الصّٰفّٰت :113) ” اور ہم نے برکت اتاری اس پر اور اسحاق (علیہ السلام) پر۔ “ مُبَارَکٌ (اسم المفعول) : برکت دیا ہوا۔ آیت زیر مطالعہ۔ تَـبَارَکَ (تفاعل) تَـبَارُکًا : (1) دوسرے کو برکت والا سمجھنا۔ یہ غیر اللہ کے لیے ہے اور اس مفہوم میں قرآن مجید میں استعمال نہیں ہوا۔ (2) برکت کا سرچشمہ ہونا ‘ بابرکت ہونا ‘ یہ مفہوم صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے۔ { تَبٰرَکَ اسْمُ رَبِّکَ ذِی الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ ۔ } (الرحمٰن) ” برکت کا سرچشمہ ہوا تیرے رب کا نام جو جلال اور اکرام والا ہے۔ “ ترکیب :” حَنِیْفًا “ حال ہے۔ ” اِنَّ “ کا اسم ” اَوَّلَ بَیْتٍ “ ہے اور نکرہ مخصوصہ ہے۔ ” وُضِعَ لِلنَّاسِ “ اس کی خصوصیت ہے۔” لَـلَّذِیْ بِبَکَّۃَ “ خبر ہے۔ ” مُبَارَکًا “ اور ” ھُدًی “ حال ہے۔ ” مَقَامُ اِبْرٰھِیْمَ “ سے پہلے ” مِنْھَا “ محذوف ہے۔ ” مَنْ “ شرطیہ ہے۔ ” دَخَلَہٗ “ شرط اور ” کَانَ اٰمِنًا “ جواب شرط ہے۔ ” کَانَ “ کا اسم اس میں ” ھُوَ “ کی ضمیر ہے اور ” اٰمِنًا “ اس کی خبر ہے۔ ” حِجُّ الْبَیْتِ “ مبتدأ مؤخر ہے ‘ اس کی خبر ” وَاجِبٌ“ محذوف ہے اور ” لِلّٰہِ “ قائم مقام خبر مقدم ہے۔ ” مَنِ اسْتَطَاعَ “ کا ” مَنْ “ ” اَلنَّاسِ “ کا بدل ہے لیکن یہ بدل کل نہیں بلکہ بدل بعض ہے۔ یعنی تمام ” النّاس “ کا بدل نہیں ہے بلکہ ان میں سے کچھ کا بدل ہے۔
Top