Mutaliya-e-Quran - Al-Ahzaab : 45
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ : بیشک ہم نے آپ کو بھیجا شَاهِدًا : گواہی دینے والا وَّمُبَشِّرًا : اور خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈر سنانے والا
اے نبیؐ، ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہ بنا کر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ [اے نبی ] اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ [بیشک ہم نے بھیجا آپ ﷺ کو ] شَاهِدًا [گواہ ہوتے ہوئے ] وَّمُبَشِّرًا [اور بشارت دینے والا ہوتے ہوئے ] وَّنَذِيْرًا [اور خبردار کرنے والا ہوتے ہوئے ] ۔ نوٹ۔ 2: آیت۔ 45 ۔ میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو گواہ بنا کر بھیجا گیا ہے۔ بعض لوگ اس کو یہ معنی پہناتے ہیں کہ آپ ﷺ آخرت میں لوگوں کے اعمال پر گواہی دیں گے۔ اور اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ آپ ﷺ تمام لوگوں کے اعمال کو دیکھ رہے ہیں۔ ورنہ بےدیکھے شہادت کیسے دیں گے۔ لیکن قرآن کی رو سے یہ تاویل بالکل غلط ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اعمال پر شہادت قائم کرنے کے لئے اللہ نے ایک دوسرا انتظام فرمایا ہے۔ اس کے فرشتے ہر شخص کا نامہ اعمال تیار کر رہے ہیں۔ (سورہ ق آیات۔ 17 ۔ 18 ۔ اور الکہف آیت۔ 149) اور وہ لوگوں کے اعضاء سے بھی گواہی لے لے گا۔ یٰسین۔ 65 ۔ حم السجدہ۔ 20 ۔ 21) رہے انبیاء (علیہم السلام) تو ان کا کام بندوں کے اعمال پر گواہی دینا نہیں بلکہ اس بات پر گواہی دینا ہے کہ بندوں تک حق پہنچا دیا گیا تھا۔ (المائدہ۔ 109 ۔ 117 ۔ سورة البقرہ۔ 143) ۔ اس کے علاوہ النحل کی آیت۔ 89 ۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے روز، نبی ﷺ کی شہادت اس شہادت سے مختلف نہ ہوگی جسے ادا کرنے کے لئے ہر امت پر گواہی دینے والے گواہوں کو بلایا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ شہادت اعمال کی ہو تو ان سب کا حاضر و ناظر ہونا لازم آتا ہے۔ اس کی تائید وہ احادیث بھی کرتی ہیں جن کو بخاری، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ اور امام احمد نے بہت سے صحابہ ؓ سے نقل کیا ہے جن کا مشترک مضمون یہ ہے کہ آپ ﷺ قیامت کے روز اپنے بعض اصحاب (یعنی امتی) کو دیکھیں گے کہ وہ لائے جا رہے ہیں مگر وہ آپ ﷺ کی طرف آنے کے بجائے دوسرے رخ پر جا رہے ہوں گے یا دھکیلے جا رہے ہوں گے۔ آپ ﷺ ان کو دیکھ کر عرض کریں گے خدایا یہ تو میرے صحابی (امتی) ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تم نہیں جانتے کہ تمہارے بعد انھوں نے کیا کرتوت کیے ہیں۔ یہ مضمون اتنے صحابہ سے اتنی کثیر سندوں کے ساتھ نقل ہوا ہے کہ اس کی صحت میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ (تفہیم القرآن)
Top