Mutaliya-e-Quran - Az-Zumar : 21
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَلَكَهٗ یَنَابِیْعَ فِی الْاَرْضِ ثُمَّ یُخْرِجُ بِهٖ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَجْعَلُهٗ حُطَامًا١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِاُولِی الْاَلْبَابِ۠   ۧ
اَلَمْ تَرَ : کیا تو نے نہیں دیکھا اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ اَنْزَلَ : اتارا مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے مَآءً : پانی فَسَلَكَهٗ : پھر چلایا اس کو يَنَابِيْعَ : چشمے فِي الْاَرْضِ : زمین میں ثُمَّ : پھر يُخْرِجُ : وہ نکالتا ہے بِهٖ : اس سے زَرْعًا : کھیتی مُّخْتَلِفًا : مختلف اَلْوَانُهٗ : اس کے رنگ ثُمَّ يَهِيْجُ : پھر وہ خشک ہوجاتی ہے فَتَرٰىهُ : پھر تو دیکھے اسے مُصْفَرًّا : زرد ثُمَّ يَجْعَلُهٗ : پھر وہ کردیتا ہے اسے حُطَامًا ۭ : چورا چورا اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَذِكْرٰى : البتہ نصیحت لِاُولِي الْاَلْبَابِ : عقل والوں کے لیے
کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کو سوتوں اور چشموں اور دریاؤں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کیا، پھر اس پانی کے ذریعہ سے وہ طرح طرح کی کھیتیاں نکالتا ہے جن کی قسمیں مختلف ہیں، پھر وہ کھیتیاں پک کر سوکھ جاتی ہیں، پھر تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد پڑ گئیں، پھر آخرکار اللہ اُن کو بھس بنا دیتا ہے در حقیقت اِس میں ایک سبق ہے عقل رکھنے والوں کے لیے
اَلَمْ تَرَ [کیا تو نے غور ہی نہیں کیا ] اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ [کہ اللہ نے اتارا ] مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً [آسمان سے کچھ پانی ] فَسَلَكَهٗ [پھر اس نے چلایا اس (پانی) کو ] يَنَابِيْعَ [بطور چشموں کے ] فِي الْاَرْضِ [زمین میں ] ثُمَّ يُخْرِجُ بِهٖ [پھر وہ نکالتا ہے اس سے ] زَرْعًا [ایک کھیتی ] مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُهٗ [مختلف ہوتے ہوئے اس کے رنگ ] ثُمَّ يَهِيْجُ [پھر وہ مرجھاتی ہے ] فَتَرٰىهُ [تو تو دیکھتا ہے اس کو ] مُصْفَرًّا [پپلی پڑتے ہوئے ] ثُمَّ يَجْعَلُهٗ [پھر وہ کردیتا ہے اس کو ] حُطَامًا ۭ [ریزہ ریزہ ] اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ [بیشک اس میں ] لَذِكْرٰى [نصیحت ہے ] لِاُولِي الْاَلْبَابِ [خالص عقل والوں کے لئے ] ۔ ہ ـ ی ج (ض) ھیجا (1) جوش میں آنا۔ ہیجان پیدا ہونا۔ چڑھنا۔ (2) کھیتی یا گھاس کا مرجھاجانا۔ سوکھنا۔ زیر مطالعہ آیت۔ 21 ۔ ترکیب : آیت 21 لفظ ھاج ۔ یھیجُ دو معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ آیت زیر مطالعہ میں دونوں معانی لینے کی گنجائش ہے۔ اس لئے دونوں طرح سے ترجمے درست مانے جائیں گے۔ مَبنیۃٌ اسم المفعول ہے یعنی بنایا ہوا۔ ” یہاں یہ لفظ آراست وپیراست (Furnished) کے مفہوم میں ہے۔ عربی میں بنی الدار جس طرح مکان بنانے کے مفہوم میں آتا ہے، اسی طرح مکان آراستہ کرنے کے مفہوم میں بھی آتا ہے۔ “ (تدبر قرآن) ۔ آیت 23 ۔ کتٰبا۔ متشابھا اور مثانی کے الفاظ کو احسن الدیث کا حال مانا جاسکتا ہے۔ لیکن ان کو اس کی صفت نہیں مان سکتے کیونکہ احسن الحدث معرفہ ہے اور یہ الفاظ نکرہ ہیں، البتہ ان کو اس کا بدل مانا جاسکتا ہے، کیونکہ بدل کا اعراب تو اس کے اعراب کے مطابق ہونا ضروری ہے جس کا وہ بدل ہے لیکن معرفہ۔ نکرہ میں مطابقت لازمی نہیں ہے۔ ہم نے ان مترجمین کی رائے کو ترجیح دی ہے جنھون نے کتٰباً کو احسن کا بدل اور نکرہ مخصوصہ مانا ہے۔ جبکہ متشابھاً اور مثانیَ کو کتٰباً کی خصوصیت مانا ہے۔
Top