Mutaliya-e-Quran - Az-Zumar : 24
اَفَمَنْ یَّتَّقِیْ بِوَجْهِهٖ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ وَ قِیْلَ لِلظّٰلِمِیْنَ ذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ
اَفَمَنْ : کیا۔ پس۔ جو يَّتَّقِيْ : بچاتا ہے بِوَجْهِهٖ : اپنا چہرہ سُوْٓءَ الْعَذَابِ : برے عذاب سے يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ : قیامت کے دن وَقِيْلَ : اور کہا جائے گا لِلظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کو ذُوْقُوْا : تم چکھو مَا : جو كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ : تم کماتے (کرتے) تھے
اب اُس شخص کی بد حالی کا تم کیا اندازہ کر سکتے ہو جو قیامت کے روز عذاب کی سخت مار اپنے منہ پر لے گا؟ ایسے ظالموں سے تو کہہ دیا جائے گا کہ اب چکھو مزہ اُس کمائی کا جو تم کرتے رہے تھے
اَفَمَنْ [تو کیا وہ جو ] يَّتَّـقِيْ [روکتا ہے ] بِوَجْهِهٖ [اپنے چہرے سے ] سُوْۗءَ الْعَذَابِ [عذاب کی برائی کو ] يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ [قیامت کے دن ] وَقِيْلَ [اور کہا جائے گا ] لِلظّٰلِمِيْنَ [ظالموں سے ] ذُوْقُوْا [تم لوگ چکھو ] مَا [اس کو جو ] كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ [تم کمائی کرتے تھے ] ۔ نوٹ۔ 1: کسی چوٹ یا مار کو آدمی اپنے منہ اس وقت لیتا ہے جب وہ بالکل بےبس ہو۔ ورنہ جب تک وہ مدافعت پر کچھ بھی قادر ہوتا ہے، وہ اپنے جسم کے ہر حصے پر چوٹ کھاتارہتا ہے مگر منہ پر مار نہیں پڑنے دیتا۔ اس لئے آیت 24 میں اس شخص کی انتہائی بےبسی کی تصویر یہ کہہ کر کھینچ دی گئی کہ وہ سخت مار اپنے منہ پر لے گا۔ (تفہیم القرآن) نوٹ۔ 2: ضرب مثل کے معنی حکمت وموعظت کی باتیں تمثیل کے اسلوب میں پیش کرنا ہے۔ تمثیل کا اسلوب حقائق کی تعلیم و تفہیم کے لئے سب سے زیادہ مؤثر ہوتا ہے، بالخصوص ان حقا ائق کی تعلیم کے لئے جن کا تعلق ایک نادیدہ عالم سے ہو۔ اس وجہ سے انبیاء (علیہم السلام) اس صنف کلام سے بہت زیادہ کام لیتے ہیں۔ تورات، انجیل، زبور، سب امثال سے معمور ہیں۔ اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے صحیفہء حکمت کا تو نام ہی امثال ہے۔ (تدبر قرآن)
Top