Mutaliya-e-Quran - An-Nisaa : 130
وَ اِنْ یَّتَفَرَّقَا یُغْنِ اللّٰهُ كُلًّا مِّنْ سَعَتِهٖ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ وَاسِعًا حَكِیْمًا
وَاِنْ : اور اگر يَّتَفَرَّقَا : دونوں جدا ہوجائیں يُغْنِ اللّٰهُ : اللہ بےنیاز کردے گا كُلًّا : ہر ایک کو مِّنْ : سے سَعَتِهٖ : اپنی کشائش سے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ وَاسِعًا : کشائش والا حَكِيْمًا : حکمت والا
لیکن اگر زوجین ایک دوسرے سے الگ ہی ہو جائیں تو اللہ اپنی وسیع قدرت سے ہر ایک کو دوسرے کی محتاجی سے بے نیاز کر دے گا اللہ کا دامن بہت کشادہ ہے اور وہ دانا و بینا ہے
[ وَاِنْ : اور اگر ] [ یَّـتَفَرَّقَا : وہ دونوں الگ ہوجائیں ] [ یُغْنِ : تو بےنیاز کر دے گا ] [ اللّٰہُ : اللہ ] [ کُلاًّ : سب کو ] [ مِّنْ سَعَتِہٖ : اپنی وسعت سے ] [ وَکَانَ : اور ہے ] [ اللّٰہُ : اللہ ] [ وَاسِعًا : وسعت دینے والا ] [ حَکِیْمًا : حکمت والا ] نوٹ : بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سورة کی آیت 3 میں عدل کی شرط کے ساتھ چار تک کی شادیاں کرنے کی اجازت دی گئی تھی ‘ لیکن اب آیت 129 میں عدل کو ناممکن قرار دے کر اس اجازت کو منسوخ کردیا گیا ہے۔ اس آیت میں اگر صرف اتنا ہی کہا ہوتا کہ تم عورتوں کے درمیان عدل نہیں کرسکتے ‘ تو پھر اس استدلال کو قبول کرنا ممکن تھا ‘ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ہدایت موجود ہے کہ ایسی صورت میں ایک ہی بیوی کے مت ہو رہو۔ اس سے ثابت ہوجاتا ہے کہ چار تک شادیاں کرنے کی اجازت منسوخ نہیں ہوئی ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ ابتدا میں جو ہدایات دی گئی تھیں ان کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کے سلسلے میں کچھ الجھنیں اور سوالات پیدا ہوئے تھے۔ ان کی وضاحت ان آیات زیر مطالعہ میں کی گئی ہے۔ اس پس منظر میں آیت 129 کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ طبعی میلان اور دلی لگائو کے پہلو سے تمام بیویوں کے درمیان برابری کرنا تمہارے اختیار میں نہیں ہے۔ اور اسلام کا یہ اصول ہے کہ جس چیز پر انسان کا اختیار نہ ہو تو اس پر اس سے مواخذہ نہیں ہوتا۔ اس لیے اس پہلو سے برابری نہ کرنے پر تم سے مواخذہ نہیں ہوگا۔ البتہ دلی لگائو میں فرق کے باوجود تمام بیویوں کے حقوق کی ادائیگی میں برابری کرنا تمہارے اختیار میں ہے۔ اس لیے اس میں کوتاہی پر تمہارا مواخذہ ہوگا۔
Top