Mutaliya-e-Quran - An-Nisaa : 139
اِ۟لَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ؕ اَیَبْتَغُوْنَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَاِنَّ الْعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعًاؕ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يَتَّخِذُوْنَ : پکڑتے ہیں (بناتے ہیں) الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) اَوْلِيَآءَ : دوست مِنْ دُوْنِ : سوائے (چھوڑ کر) الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) اَيَبْتَغُوْنَ : کیا ڈھونڈتے ہیں ؟ عِنْدَھُمُ : ان کے پاس الْعِزَّةَ : عزت فَاِنَّ : بیشک الْعِزَّةَ : عزت لِلّٰهِ : اللہ کے لیے جَمِيْعًا : ساری
کیا یہ لوگ عزت کی طلب میں اُن کے پاس جاتے ہیں؟ حالانکہ عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کے لیے ہے
[ الَّذِیْنَ : (یہ) وہ لوگ (ہیں) جو ] [ یَتَّخِذُوْنَ : بناتے ہیں ] [ الْکٰفِرِیْنَ : کافروں کو ] [ اَوْلِیَـآئَ : کارساز ] [ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ : مؤمنوں کے علاوہ ] [ اَ : کیا ] [ یَبْتَغُوْنَ : یہ لوگ تلاش کرتے ہیں ] [ عِنْدَہُمُ : ان کے پاس ] [ الْعِزَّۃَ : عزت کو ] [ فَاِنَّ الْعِزَّۃَ : تو یقینا عزت تو ] [ لِلّٰہِ : اللہ ہی کی ملکیت ہے ] [ جَمِیْعًا : کل کی کل ] نوٹ 1 : آیت 135 میں اللہ تعالیٰ کا حکم بہت واضح ہے۔ اس میں یہ نہیں کہا ہے کہ انصاف کرو بلکہ یہ حکم دیا ہے کہ انصاف کی نگہبانی کرنے والے بنو۔ اس طرز کلام سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انصاف کرنے کا اختیار تو معاشرے میں چند افراد کو حاصل ہوتا ہے اور انصاف کرنا ان کا فرض ہے ‘ البتہ انصاف کی نگہبانی کرنا معاشرے کے ہر فرد پر فرض ہے۔ اس لیے کسی بھی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ حق بات کہنے اور حق کی گواہی دینے سے گریز کرے ‘ خواہ اس کے نتیجے میں اپنا نقصان ہوتا ہو یا والدین اور رشتہ داروں کا نقصان ہوتا ہو ‘ مزید یہ کہ اس فرض کی ادائیگی میں نہ تو کسی مالدار کی کوئی رعایت کرے اور نہ کسی غریب پر ترس کھائے۔ ہم لوگ اپنے رب کے اس حکم کے ساتھ جو سلوک کر رہے ہیں اس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے ‘ کیونکہ ہر شخص کو اس کا مشاہدہ اور تجربہ ہے۔ نوٹ 2 : آیت 136 میں جو لوگ ایمان لا چکے ہیں ‘ انہیں حکم دیا جا رہا ہے کہ تم لوگ ایمان لائو۔ یہ دراصل اقرار باللسان اور تصدیق بالقلب کی بات ہے۔ اس لیے کہ ایک شخص جب دین کی مبادیات کا زبان سے اقرار کرلیتا ہے تو وہ اہل ایمان کے زمرے میں شامل ہوجاتا ہے۔ اب اس سے اللہ تعالیٰ کا مطالبہ یہ ہے کہ جن باتوں کا زبان سے اقرار کیا ہے ‘ ان پر اب دلی یقین کی کیفیت بھی پیدا کرو۔ اس حکم کی اہمیت کو سمجھ لیں۔ اس دنیا میں کسی کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ صرف زبانی اقرار کی بنیاد پر ہوگا ‘ کیونکہ دلی یقین کو ناپنے کا ہمارے پاس کوئی پیمانہ نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ زبانی اقرار ایک جامد حقیقت ہے۔ اس کا وجود یا تو ہوگا یا نہیں ہوگا۔ اس میں کسی کمی بیشی کا امکان نہیں۔ اس لیے دنیوی حقوق میں تمام مسلمان برابر ہیں۔ کسی باپ کا ایک بیٹا عابد و زاہد اور فرمانبردار ہے ‘ جبکہ دوسرا بیٹا فاسق و فاجر اور نافرمان ہے ‘ لیکن والد کے انتقال پر ترکہ میں دونوں کو برابر حصہ ملے گا۔ فرمانبردار کو زیادہ اور نافرمان کو کم دینے کی اجازت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی اولاد کو عاق کرنے کی اسلام میں اجازت نہیں ہے۔ آخرت میں فیصلے کے وقت بھی پہلے زبانی اقرار کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ کیونکہ اقرار کرنے والوں اور انکار کرنے والوں کا حساب الگ الگ ہوگا۔ اقرار کرنے والوں کی نمازوں کی پہلے گنتی ہوگی۔ اگر نمازوں کی گنتی پوری ہوگی تو حساب کتاب آگے بڑھے گا اور باقی نیکیوں کی گنتی ہوگی۔ اعمال کی گنتی کے بعد ان کا وزن ہوگا۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں دلی یقین کی ضرورت پڑے گی۔ اس لیے کہ ایک مسلمان دلی یقین کے ساتھ نیکیاں کرتا رہا اور دوسرا یقین سے خالی دل کے ساتھ نیکیاں کرتارہا ‘ تو دونوں کی نیکیاں گنتی میں اگر برابر بھی ہوں ‘ تب بھی وزن میں برابر نہیں ہوں گی۔ ایک نیکی کے عوض دس سے سات سو نیکی کے اجر کے فیصلے میں نیکی کرنے والے کے ظروف و احوال کے ساتھ اس کی نیت اور دلی کیفیت کا بھی عمل دخل ہوگا۔ اس لیے زبانی اقرار کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ کا مطالبہ ہے کہ دلی یقین بھی پیدا کرو۔ اللہ تعالیٰ کے مطالبے کی اہمیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جس طرح زبانی اقرار ایک جامد حقیقت ہے اور اس میں کمی بیشی کا امکان نہیں ہے ‘ اسی طرح دلی یقین ایک متغیر حقیقت ہے اور اس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ اس لیے آخرت میں کامیابی کے خواہش مند مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے دلی یقین کے لیے فکر مند رہے ‘ اللہ سے دعا بھی کرتا رہے اور اسے برابر چیک بھی کرتا رہے۔ جس طرح ذیابیطس کا مریض صبح و شام اپنا شوگر لیول چیک کرتا ہے۔
Top