Mutaliya-e-Quran - An-Nisaa : 50
اُنْظُرْ كَیْفَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ١ؕ وَ كَفٰى بِهٖۤ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠   ۧ
اُنْظُرْ : دیکھو كَيْفَ : کیسا يَفْتَرُوْنَ : باندھتے ہیں عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر الْكَذِبَ : جھوٹ وَكَفٰى : اور کافی ہے بِهٖٓ : یہی اِثْمًا : گناہ مُّبِيْنًا : صریح
دیکھو تو سہی، یہ اللہ پر بھی جھوٹے افترا گھڑنے سے نہیں چوکتے اور ان کے صریحاً گناہ گا ر ہونے کے لیے یہی ایک گناہ کافی ہے
[ اُنْظُرْ : تو دیکھ ] [ کَیْفَ : کیسے ] [ یَفْتَرُوْنَ : وہ گھڑتے ہیں ] [ عَلَی اللّٰہِ : اللہ پر ] [ الْکَذِبَ : جھوٹ ] [ وَکَفٰی : اور کافی ہے ] [ بِہٖٓ : وہ ] [ اِثْمًا مُّبِیْنًا : بطور واضح گناہ کے ] نوٹ 1 : کچھ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ مذکورہ آیت 47 کے نزول کے بعد بیشمار یہود و نصاریٰ ایمان نہیں لائے پھر بھی مذکورہ عذاب نازل نہیں ہوا۔ یہ سوال قرآن مجید کے طرز بیان کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کا کہنا ہے کہ سرے سے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ‘ کیونکہ یہاں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جس سے معلوم ہو کہ یہ عذاب ضرور واقع ہوگا ‘ بلکہ اس کے امکان کا ذکر ہے ۔ (منقول از معارف القرآن) ہمارے چند متقدمین نے اس کو استعارۃً لیا ہے۔ مثلاً مجاہد (رح) کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ حق کے راستے سے دھکیل کر گمراہی کی طرف متوجہ کردیں۔ ابوزید (رح) کے نزدیک لوٹادینا یہ تھا کہ ارض حجاز سے بلاد شام میں پہنچادیا جائے (منقول از تفسیر ابن کثیر) ۔ استعارے کی گنجائش اس لیے بھی نکلتی ہے کہ وُجُوْہٌ کا لفظ چہروں کے علاوہ پوری شخصیت اور توجہ وغیرہ کے معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ نوٹ 2 : کوئی شخص اگر مرنے سے پہلے کسی بھی گناہ سے سچی توبہ کرلے تو وہ معاف ہوجائے گا ‘ یہاں تک کہ شرک بھی سچی توبہ سے معاف ہوجاتا ہے۔ آیت 48 میں ایسے لوگوں کا ذکر ہے جن کو توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوئی۔ ایسے لوگوں میں سے جو شرک میں ملوث تھے ‘ تو وہ معاف نہیں ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے۔ اگر کوئی شرک میں ملوث نہیں تھا لیکن کچھ دوسرے گناہ تھے ‘ تو ان کی معافی کا امکان ہے۔ اور یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ اپنے علم کامل کی بنیاد پر کرے گا کہ کس کا کون سا گناہ معاف کیے جانے کے قابل ہے۔ نوٹ 3: آیت 49 میں { الَّذِیْنَ یُزَکُّوْنَ اَنْفُسَہُمْ } کا ہم نے لفظی ترجمہ کیا ہے۔ سات مختلف ترجموں میں چیک کیا تھا اور ان سب میں اس کا مطلب یہ دیا گیا ہے کہ جو لوگ خود کو پاکیزہ سمجھتے ہیں یا اپنی پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔ یہ دراصل تفسیری ترجمہ ہے جس کی وضاحت ضروری ہے۔ اس آیت میں جو طرز بیان ہے وہ قرآن مجید میں اور بھی متعدد مقامات پر اختیار کیا گیا ہے۔ ان میں سے صرف ایک کے حوالے سے ان شاء اللہ بات آسانی سے سمجھ میں آجائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :” یقینا آپ ﷺ ہدایت نہیں دیتے اس کو جس کو آپ ﷺ چاہیں بلکہ اللہ ہدایت دیتا ہے اس کو جس کو وہ چاہتا ہے ‘ اور وہ خوب جانتا ہے ہدایت پانے والوں کو “۔ (القصص :56) ۔ اس مقام پر یہ بات بہت واضح ہے کہ اس آیت میں ہدایت دینے کی کوشش کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔ یہ نہ صرف مطلوب اور محمود ہے بلکہ بعض اوقات فرض بھی ہے۔ البتہ یہ بات سمجھانا مقصود ہے کہ ہماری اس کوشش کا نتیجہ کس کے حق میں نکلے گا ‘ کب نکلے گا اور کتنا نکلے گا ‘ یہ سارے فیصلے کلیتاً اللہ تعالیٰ کے قبضہ ٔقدرت میں ہیں اور یہ فیصلے وہ اپنے علم کامل کی بنیاد پر کرتا ہے۔ اس لیے اپنی کوشش میں لگے رہو اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دو ۔ اسی کا نام توکل ہے۔ اسی طرح آیت زیر مطالعہ میں بھی اپنے نفس کا تزکیہ کرنے کی کوشش کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔ یہ کوشش بھی مطلوب و محمود ہے۔ البتہ یہاں ایسے لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو اس کوشش کے نتیجے کو یقینی سمجھ کر خود کو پاک سمجھنا شروع کردیتے ہیں اور اپنی پاکیزگی کا دعویٰ کرنے لگتے ہیں۔ آیت کے مفہوم کے اسی پہلو کو تفسیری ترجموں میں اجاگر کیا گیا ہے۔ نوٹ 4 : آیت 48 میں اللہ تعالیٰ نے قطعی اعلان کردیا ہے کہ وہ شرک معاف نہیں کرے گا۔ اس لیے ہر صاحب ایمان کا یہ فرض بنتا ہے کہ شرک کو پہچاننے کی وہ خود استعداد حاصل کرے اور دوسروں کے کہنے پر بھروسہ نہ کرے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میدان حشر میں یہ بات قبول نہیں کی جائے گی کہ فلاں نے ہم کو غلط بتایا تھا ‘ اس لیے اس کو پکڑو اور ہم کو چھوڑ دو ۔ وہ بھی پکڑ اجائے گا اور ساتھ میں ہم بھی پکڑے جائیں گے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس بات کی وضاحت موجود ہے ‘ مثلاً الاعراف :38‘ الاحزاب :67 وغیرہ۔ غلط لوگوں کی پیروی کرنے والوں کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ غور و فکر اور عقل کی صلاحیتوں کو استعمال نہیں کیا اور کسی تحقیق کے بغیر دوسروں کی پیروی کی (بنی اسرائیل :36) ۔ اس لیے کم از کم شرک کی حد تک تو یہ لازمی ہے کہ دوسروں سے فتویٰ مانگنے کے بجائے ہم خود فیصلہ کرسکیں کہ کیا شرک ہے اور کیا نہیں ہے ؟ اسی مقصد سے اس نوٹ میں شرک کے متعلق ضروری معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔ انسانی تاریخ کا یہ ایک المیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں شرک ان قوموں نے کیا جو اللہ اور آخرت کو مانتے تھے۔ یہود نے حضرت عزیر (علیہ السلام) اور نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا بنایا جبکہ بنواسماعیل نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیا۔ اس پس منظر میں یہ ایک معجزہ ہے کہ امت محمد (ﷺ) تاحال شرک بالذات سے بچی ہوئی ہے ‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں دوسروں کو شریک کرنے کے جرم سے ہم لوگ بھی نہ بچ سکے۔ اس لیے اس نوٹ میں ہم شرک فی الصفات کے متعلق کچھ اصولی باتیں سمجھیں گے تاکہ اس کو پہچاننے کی صلاحیت حاصل ہوجائے۔ شرک فی الصفات میں مغالطہ لاحق ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری زبان میں جو الفاظ اللہ تعالیٰ کی صفات کے لیے استعمال ہوتے ہیں وہی الفاظ مخلوق کی صفات کے لیے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ مثلاً اللہ سمیع ہے تو ہم بھی سنتے ہیں ‘ اللہ عالم ہے تو ہم بھی عالم ہیں وغیرہ۔ اس سبب سے پیدا ہونے والے مغالطے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اللہ اور مخلوق کی صفات میں تین بنیادی فرق ذہن میں رکھیں تاکہ شرک فی الصفات سے بچ سکیں۔ (1) پہلا فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اس کی ذاتی ہیں ‘ کسی نے اس کو دی نہیں ‘ جبکہ مخلوق کی صفات ان کی ذاتی نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کی ہیں تو ان کو ملی ہیں۔ (2) دوسرا فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اسے ہمیشہ سے حاصل ہیں اور ہمیشہ رہیں گی ‘ جبکہ مخلوق کی صفات حادث بھی ہیں اور فانی بھی۔ حادث کا مطلب یہ ہے کہ مخلوق میں صفات پہلے نہیں تھیں ‘ اللہ تعالیٰ کے عطا کرنے سے اسے حاصل ہوئیں۔ فانی کا مطلب یہ ہے کہ مخلوق کی صفات ختم ہوجاتی ہیں۔ (3) تیسرا اور بہت اہم فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات لامحدود ہیں جبکہ مخلوق کی صفات محدود ہیں۔ مثلاً جو آواز فاصلے پر ہو ‘ اسے ہم نہیں سن سکتے۔ آواز اگر ہلکی ہو تو آوازکا احساس ہوتا ہے لیکن بات سمجھ میں نہیں آتی۔ اگر ہمارے سامنے کئی افراد بیک وقت ایک دوسرے سے بات (cross talk) شروع کردیں تو سب کی آواز ہمارے کان میں آئے گی لیکن بات کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آئے گی۔ یہ سب کچھ ہماری صفت سماعت کے محدود ہونے کا ثبوت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفت سماعت کے لامحدود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ فاصلے اس کے لیے بےمعنی ہیں۔ بندہ چاہے قطب شمالی پر ہو یا قطب جنوبی پر ‘ وہ سب کی سنتا ہے۔ آواز کا تیز یا ہلکا ہونا بھی اس کے لیے بےمعنی ہے ‘ وہ تو دل میں آنے والے خیال بھی سن لیتا ہے۔ اگر پوری دنیا کے انسان اسے بیک وقت پکاریں تو وہ ہر ایک کی سن لیتا ہے۔ اسی طرح ہم بقیہ صفات کے محدود اور لامحدود ہونے کا فرق سمجھ سکتے ہیں۔ یہ ایک پیمانہ (yard stick) ہے جس پر رکھ کر ہر شخص خود معلوم کرسکتا ہے کہ کیا شرک ہے اور کیا شرک نہیں ہے۔ اب یہ بھی نوٹ کرلیں کہ قرآن مجید میں شرک سے متعلق آیات کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے اور ان میں اکثر شرک فی الصفات سے متعلق ہیں۔ نمونے کے طور پر صرف دو آیات دیکھ لیں : (1) ” اور تم لوگ اس کے علاوہ جن لوگوں کو پکارتے ہو وہ قطمیر (کھجور کی گٹھلی پر پائی جانے والی سفید جھلی) کے بھی مالک نہیں ہیں۔ اگر تم لوگ ان کو پکارو گے تو وہ لوگ تمہاری پکار کو نہیں سنیں گے ‘ اور اگر سنیں گے تو تم لوگوں کی حاجت روائی نہیں کرسکیں گے ‘ اور قیامت کے دن انکار کریں گے تم لوگوں کے شرک کا۔ “ (فاطر :13‘14) (2) ” اسی کو (یعنی اللہ کو ہی ) پکارنا حق ہے۔ اور یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں وہ ان کے کچھ کام نہیں آتے مگر (اس طرح) جیسے کسی نے پانی کی طرف دونوں ہتھیلیاں پھیلائیں کہ وہ اس کے منہ تک آپہنچے اور وہ اس تک پہنچنے والا نہیں ہے۔ “ (الرعد :14)
Top