Mutaliya-e-Quran - An-Nisaa : 5
وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِیٰمًا وَّ ارْزُقُوْهُمْ فِیْهَا وَ اكْسُوْهُمْ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
وَلَا : اور نہ تُؤْتُوا : دو السُّفَھَآءَ : بےعقل (جمع) اَمْوَالَكُمُ : اپنے مال الَّتِىْ : جو جَعَلَ : بنایا اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لئے قِيٰمًا : سہارا وَّارْزُقُوْھُمْ : اور انہیں کھلاتے رہو فِيْھَا : اس میں وَاكْسُوْھُمْ : اور انہیں پہناتے رہو وَقُوْلُوْا : اور کہو لَھُمْ : ان سے قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : معقول
اور اپنے وہ مال جنہیں اللہ نے تمہارے لیے قیام زندگی کا ذریعہ بنایا ہے، نادان لوگوں کے حوالہ نہ کرو، البتہ انہیں کھانے اور پہننے کے لیے دو اور انہیں نیک ہدایت کرو
( وَلاَ تُؤْتُوا : اور تم مت دو ) (السُّفَہَـآئَ : نادانوں کو ) (اَمْوَالَـکُمُ : اپنے مال الَّتِیْ : جن کو) (جَعَلَ : بنایا ) (اللّٰہُ : اللہ نے ) (لَـکُمْ : تمہارے لیے ) (قِیٰمًا : کھڑے ہونے کا ذریعہ (معیشت میں) ) (وَّارْزُقُوْہُمْ : اور رزق دو ان کو ) (فِیْہَا : اس میں سے ) (وَاکْسُوْہُمْ : اور پہنائو ان کو ) (وَقُوْلُوْا : اور کہو ) (لَہُمْ : ان سے ) (قَوْلاً مَّعْرُوْفًا : بھلی بات) ترکیب : ” نِحْلَۃً “ حال ہے۔ ” مِنْہُ “ کی ضمیر ” صَدُقٰتٍ “ کے لیے ہے۔ ” ھَنِیْئًا مَّرِیْئًا “ حال ہے ” کُلُوْہُ “ کی ضمیر مفعولی کا ‘ جو ” شَیْئٍ “ کے لیے ہے۔ ” جَعَلَ “ کا مفعول ” الَّتِیْ “ ہے۔ نوٹ 1: مادہ ” ص د ق “ کی لغت البقرۃ :23 میں دی گئی ہے۔ وہاں لفظ ” صَدُقَۃٌ“ رہ گیا تھا۔ اس کے معنی ہیں بیوی کا حق مہر۔ اس کی جمع ” صَدُقَاتٌ“ ہے۔ اسی طرح مادہ ” ق و م “ کی لغت الفاتحہ :5 میں دی گئی ہے۔ وہاں لفظ ” قِیَامٌ“ رہ گیا تھا۔ یہ مصدر بھی ہے اور اسم الفاعل ” قَائِمٌ“ کی جمع بھی ” قِیَامٌ“ آتی ہے۔ جیسے { سُجَّدًا وَّقِیَامًا ۔ } (الفرقان) ” سجدے کرنے والے ہوتے ہوئے اور کھڑے ہونے والے ہوتے ہوئے “۔ اس کے علاوہ ” قِیَامٌ“ اسم ذات بھی ہے۔ اس کے معنی ہیں وہ چیز جس پر کھڑا ہو اجائے۔ جیسے کِتَابٌ وہ چیز جس پر لکھا جائے۔ یہاں مال کے حوالے سے قِیَامًا آیا ہے۔ اس کا مطلب ہے معاشی لحاظ سے جس پر کھڑا ہو یعنی معیشت کا ذریعہ۔ نوٹ 2: زیر مطالعہ آیت 3 میں بیک وقت چار تک شادیاں کرنے کی اجازت دی گئی ہے ۔ لیکن ایک سے زیادہ شادی کی مخالفت کرنے والے جدید تعلیم یافتہ لوگ بھی اسی آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ یہ اجازت مخصوص حالات میں مخصوص لوگوں کے لیے ہے اور چار شادیاں کرنے کی عام اجازت اسلام میں کہیں نہیں ہے۔ اس مسئلہ کو ایک مثال سے آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ روزوں کے متعلق جب یہ آیت اتری کہ تم لوگ کھائو پیو یہاں تک کہ سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے واضح ہوجائے (البقرۃ :187) تو ایک صحابی سحری کے وقت سیاہ اور سفید دھاگے کو دیکھا کرتے۔ جب رنگوں کا فرق واضح ہوجاتا تو کھانا بند کردیتے۔ حضور ﷺ نے انہیں سمجھایا کہ صاحب کلام یعنی اللہ تعالیٰ کی اس آیت سے یہ مراد نہیں ہے۔ اس مثال کے حوالے سے یہ اصول ذہن نشین کرلیں کہ قرآن مجید کی کسی آیت کے اور خاص طور سے عملی ہدایات والی آیات کے جو معانی رسول ﷺ اور صحابہ کرام ؓ نے بیان کیے ہیں ‘ وہ ہمارے لیے حرفِ آخر ہیں۔ جب اہل زبان کے لیے ممکن نہیں تھا کہ صرف آیات کے الفاظ سے وہ اللہ تعالیٰ کی منشا اور مرضی معلوم کرلیں تو پھر ہم کس قطار شمار میں ہیں ؟ متعدد احادیث اور اقوالِ صحابہ ؓ سے اس آیت کے معنی مراد کا علم حاصل ہوتا ہے۔ اس وقت نہ صرف عرب بلکہ پوری دنیا میں کثرت ازواج کا رواج تھا۔ اس آیت میں اس کی حد بندی کی گئی ہے۔ چار سے زیادہ شادیاں کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے اور چار تک شادیاں کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ کہتے ہیں کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ چوتھی اور تیسری شادی تو دور کی بات ہے ہم تو وہ لوگ ہیں جو دوسری شادی کو بھی بہت برا سمجھتے ہیں ‘ اس لیے عائلی قوانین میں اس پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اس درخت کا پھل یہ سامنے آیا کہ آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلامی معاشرے میں لیڈی سیکرٹری یا گرل فرینڈ رکھنا رواج کی بات ہے ‘ داشتہ رکھنا تو کمال کی بات ہے ‘ لیکن دوسری شادی کرنا معاشرتی عذاب کی بات ہے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَـیْہِ رَاجِعُوْنَ ! ع ” حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں ! “
Top