Mutaliya-e-Quran - An-Nisaa : 87
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ؕ لَیَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَا رَیْبَ فِیْهِ١ؕ وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِیْثًا۠   ۧ
اَللّٰهُ : اللہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : عبادت کے لائق اِلَّا ھُوَ : اس کے سوا لَيَجْمَعَنَّكُمْ : وہ تمہیں ضرور اکٹھا کرے گا اِلٰى : طرف يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت لَا رَيْبَ : نہیں شک فِيْهِ : اس میں وَمَنْ : اور کون اَصْدَقُ : زیادہ سچا مِنَ اللّٰهِ : اللہ سے حَدِيْثًا : بات میں
اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہ تم سب کو اُس قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شبہہ نہیں، اور اللہ کی بات سے بڑھ کر سچی بات اور کس کی ہوسکتی ہے
[ اَللّٰہُ : اللہ ] [ لَآ اِلٰــہَ : کوئی الٰہ نہیں ہے ] [ اِلاَّ : مگر ] [ ہُوَ : وہ ] [ لَـیَجْمَعَنَّـکُمْ : وہ لازماً جمع کرے گا تم لوگوں کو ] [ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ : قیامت کے دن کی طرف ] [ لاَ رَیْبَ : کوئی شک نہیں ہے ] [ فِیْہِ : جس میں ] [ وَمَنْ : اور کون ] [ اَصْدَقُ : زیادہ سچا ہے ] [ مِنَ اللّٰہِ : اللہ سے ] [ حَدِیْثًا : بلحاظ بات کے ] نوٹ 1: میدان احد سے مکہ واپس ہوتے ہوئے کفار اور مسلمانوں کے درمیان اگلے سال میدان بدر میں دوبارہ جنگ کرنے کا وعدہ ہوا تھا۔ وقت آنے پر اس کی تیاری میں کچھ مسلمانوں کو تامل تھا۔ اس وقت آیت 84 نازل ہوئی۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ ستر صحابہ کرام ؓ کے ساتھ میدان بدر میں پہنچ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار قریش کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور وہ مقابلہ پر نہیں آئے۔ اس طرح اللہ نے ان کی جنگ کو روک دیا۔ (معارف القرآن) عمومیت کے پہلو سے آج کل ہمارے لیے اس آیت میں یہ راہنمائی ہے کہ اسلام دشمن طاقتوں سے مذاکرات اگر ناکام ہوجائیں تو ان کی جنگ کو روکنے کے لیے ان سے جنگ کی جائے ‘ کیونکہ لوہا لوہے سے کٹتا ہے پھول کی پتی سے نہیں۔ نوٹ 2 : کوئی ہمارا مدمقابل (competitor) اپنا کوئی کام اگر سفارش کے ذریعے نکلوا لیتا ہے تو ہم سفارش کرنے والے اور اسے قبول کرنے والے کو برا کہتے ہیں اور اگر کبھی ہمارا کوئی کام کسی کی سفارش سے نکل جائے تو ہم ان دونوں کو ثواب کی خوشخبری دیتے ہیں۔ کسی سفارش کے اچھے یا برے ہونے کا یہ معیار غلط ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جائز اور ناجائز سفارش کا فرق ہمارے ذہن میں واضح ہو۔ آیت 85 کی تفسیر میں معارف القرآن میں تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے : کسی سفارش کے اچھا یا جائز ہونے کے لیے شرط ہے کہ : (1) جس کی سفارش کی جائے اس کا مطالبہ حق اور جائز ہو۔ (2) آپ اس کا مطالبہ متعلقہ حاکم تک پہنچا دیں۔ (3) اس کا کوئی معاوضہ نہ لیں۔ (4) سفارش قبول کرنے کے لیے متعلقہ حاکم پر کوئی دبائو نہ ڈالیں ۔ اور (5) حاکم جو بھی فیصلہ کرے اس پر راضی رہیں۔ ان شرائط کو پورا کرتے ہوئے سفارش کرنے والے کو ثواب ملے گا خواہ اس کی سفارش قبول ہو یا نہ ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ سفارش کیا کرو ‘ تمہیں ثواب ملے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کے ذریعہ جو فیصلہ فرمائیں اس پر راضی رہو۔ بی بی عائشہ ؓ کی آزاد کردہ کنیز بریرہ ؓ نے اپنے شوہر سے طلاق حاصل کرلی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا کہ وہ اپنے شوہر سے دوبارہ نکاح کرلیں۔ بریرہ ؓ نے پوچھا کہ یہ حکم ہے یا سفارش ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ حکم نہیں سفارش ہے ! انہوں نے عرض کیا کہ پھر میں یہ سفارش قبول نہیں کرتی۔ رسول اللہ ﷺ نے خوش دلی کے ساتھ ان کو ان کے حال پر رہنے دیا۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندے کی امداد میں لگا رہتا ہے جب تک وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کی امداد میں لگا رہے۔ اسی طرح کسی مسلمان کی حاجت روائی کے لیے اللہ سے دعا مانگنا بھی شفاعت حسنہ میں داخل ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جب کوئی مسلمان اپنے بھائی کے لیے دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے کہ اللہ تیری بھی حاجت پوری فرمائے ۔ (معارف القرآن) اچھی اور بری سفارش کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی کوشش سے جب کچھ لوگوں کو کسی نیکی کے کام پر آمادہ کرتا ہے ‘ تو جب تک وہ لوگ نیکی کرتے رہیں گے ‘ اسے اس میں حصہ ملتا رہے گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کچھ لوگوں کو برائی پر آمادہ کرتا ہے ‘ تو جب تک وہ لوگ وہ برائی کرتے رہیں گے ‘ وہ برائی اس کے حصے میں بھی آتی رہے گی۔ لیکن اس کی وجہ سے نیکی یا برائی کرنے والوں کے اپنے ثواب یا سزا میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ نوٹ 3 : نزولِ قرآن کے وقت مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تعلقات نہایت کشیدہ ہو رہے تھے اور اندیشہ تھا کہ کہیں مسلمان دوسرے لوگوں کے ساتھ کج خلقی سے نہ پیش آنے لگیں۔ اس لیے انہیں آیت 86 میں ہدایت کی گئی کہ جو تمہارے ساتھ احترام کا برتائو کرے اس کے ساتھ تم بھی ویسے ہی بلکہ اس سے زیادہ احترام سے پیش آئو۔ حق کی دعوت دینے والوں کے لیے ترش روی اور تلخ کلامی مناسب نہیں ہے۔ اس سے نفس کی تسکین ہوتی ہے مگر اس کے مقصد کو نقصان پہنچتا ہے ۔ (تفہیم القرآن) آج کل مختلف مکاتب فکر کے مسلمان بھائی آپس میں تعلقات کشیدہ کرلیتے ہیں ‘ انہیں اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر غور کرنا چاہیے۔
Top