Mutaliya-e-Quran - Al-Ghaafir : 55
فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِیِّ وَ الْاِبْكَارِ
فَاصْبِرْ : پس آپ صبر کریں اِنَّ : بیشک وَعْدَ اللّٰهِ : اللہ کا وعدہ حَقٌّ : سچا وَّاسْتَغْفِرْ : اور مغفرت طلب کریں لِذَنْۢبِكَ : اپنے گناہوں کے لیے وَسَبِّحْ : اور پاکیزگی بیان کریں بِحَمْدِ رَبِّكَ : اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ بِالْعَشِيِّ : شام وَالْاِبْكَارِ : اور صبح
پس اے نبیؐ، صبر کرو، اللہ کا وعدہ بر حق ہے، اپنے قصور کی معافی چاہو اور صبح و شام اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو
فَاصْبِرْ [ پس آپ ثابت قدم رہیں ] اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ [ بیشک اللہ کا وعدہ پکا ہے ] وَّاسْتَـغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ [ اور آپ مغفرت چاہیں اپنی (کمال صبر میں) کمی بیشی کی ] وَسَبِّحْ [ اور آپ تسبیح کریں ] بِحَمْدِ رَبِّكَ [ اپنے رب کی حمد کے ساتھ ] بِالْعَشِيِّ وَالْاِبْكَارِ [ شام کو اور صبح کو ] نوٹ ۔ 2: آیت ۔ 55 میں جس سیاق وسباق میں لذنبک کا لفظ آیا ہے ۔ اس پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس مقام پر ذنب سے مراد صبر میں کمی کی وہ کیفیت ہے جو شدید مخالفت کے اس ماحول میں خاص طور پر اپنے ساتھیوں کی مظلومی دیکھ دیکھ کر ، نبی کریم اللہ ﷺ میں پیدا ہورہی تھی ۔ آپ چاہتے تھے کہ کوئی معجزہ ایسا دیکھا دیا جائے جس سے کفار قائل ہوجائیں اور مخالفت کا یہ طوفان ٹھنڈا ہوجائے یہ خواہش بجائے خود کوئی گناہ نہ تھی جس پر کسی توبہ و استغفار کی حاجت ہوتی ۔ لیکن جس مقام بلند پر اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو سرفراز فرمایا تھا اس کے لحاظ سے صبر میں یہ تھوڑی سی کمی بھی اللہ تعالیٰ کو آپ کے مرتبہ سے فروتر نظر آئی ۔ اس لئے ارشاد ہوا کہ اس کمزوری پر اپنے رب سے معافی مانگو اور چٹان کی طرح اپنے مؤقف پر ڈٹے رہو ۔ (تفہیم القرآن ) یہاں ایک تدبیر بھی ارشاد ہوئی ہے اس صبر و استقامت کے حصول کی جو اس وعدے کے ظہور کے لئے لازمی شرط ہے جس کا ذکر آیت ۔ 51 ۔ میں آیا ہے تدبیر یہ ہے کہ اپنے رب سے استغفار اور اس کی حمد و تسبیح کرتے رہو ۔ یہ بات اس کے محل میں واضح ہوچکی ہے کہ حصول استقامت کے لئے کامیابی کا وسیلہ استغفار اور نماز ہے ۔ اور یہ بات بھی واضح ہوچکی ہے کہ اس طرح کے خطابات میں نبی کریم ﷺ شخصا مخاطب نہیں ہوتے بلکہ امت کے وکیل کی حیثیت سے مخاطب ہوتے ہیں ۔ جو لوگ خطاب کی اس نوعیت اور اس کی بلاغت سے اچھی طرح آشنا نہیں ہوتے ان کو رسول اللہ ﷺ کی طرف ذنب کے لفظ کی نسبت سے وحشت ہوتی ہے۔ (تدبیر قرآن )
Top