Mutaliya-e-Quran - Az-Zukhruf : 18
اَوَ مَنْ یُّنَشَّؤُا فِی الْحِلْیَةِ وَ هُوَ فِی الْخِصَامِ غَیْرُ مُبِیْنٍ
اَوَمَنْ : کیا بھلا جو يُّنَشَّؤُا : پالا جاتا ہے فِي : میں الْحِلْيَةِ : زیورات (میں) وَهُوَ فِي الْخِصَامِ : اور وہ جھگڑے میں غَيْرُ مُبِيْنٍ : غیر واضح ہو
کیا اللہ کے حصے میں وہ اولاد آئی جو زیوروں میں پالی جاتی ہے اور بحث و حجت میں اپنا مدعا پوری طرح واضح بھی نہیں کر سکتی؟
اَوَمَنْ [ اور کیا وہ (اولاد ) جس کی ] يُّنَشَّؤُا [ پرورش کی جاتی ہے ] فِي الْحِلْيَةِ [ زیور میں ] وَهُوَ فِي الْخِـصَامِ [ اور وہ حجت بازی میں ] غَيْرُ مُبِيْنٍ [وضاحت کے بغیر ہے ] نوٹ ۔ 1: آیت ۔ 18 ۔ میں اس احساس کی تعبی رہے جو لڑکی کی ولادت کی خبر سن کر اہل عرب کے دل میں پیدا ہوتا ۔ وہ اس سوچ میں پڑجاتے کہ کیا وہ وجود میں آئی ہے جو زیوروں میں پلتی ہے ( یعنی شمشیر زنی نہیں کرتی ) اور مفاخرت کے مقابلوں میں بےزبان ہے اور عرب جاہلیت میں ان دونوں ہی چیزوں کے رسیا تھے ۔ ان کے ہاں آئے دن جنگیں بھی برپا ہوتیں اور مفاخرت کے مقابلے بھی ہوتے رہتے تھے ۔ ظاہر ہے کہ عورت ان دونوں میں ہی میدانوں میں فروتر تھی ۔ اس وجہ سے اہل عرب کی نگاہوں میں اس کی کچھ زیادہ اہمیت نہ تھی ۔ اور یہ بات کچھ اہل عرب کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہے ۔ اس زمانے میں بھی عورت کو جو اہمیت حاصل ہوئی ہے وہ نمائش کی مجالس ہی میں ہوئی ہے ۔ مبازرت اور مفاخرت کے اعتبار سے تو آج بھی وہ وہیں ہے جہاں عرب جاہلیت کے دور میں تھی ، یہ امر یہاں اچھی طرح ملحوظ رہے کہ عورت پر یہ تبصرہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے بلکہ ان اہل عرب کی طرف سے ہے جو فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے ۔ (تدبر قرآن ) مطلب یہ ہے کہ عورتوں کی اکثریت ایسی ہے کہ وہ مافی الضمیر کو قوت اور وضاحت کے ساتھ بیان کرنے پر مردوں کے برابر قادر نہیں ہوتی ، لیکن یہ حکم اکثریت کے اعتبار سے ہے ۔ لہذا اگر کچھ عورتیں سلیقہ گفتار کی مالک ہوں اور اس معاملہ میں مردوں سے بھی بڑھ جائیں تو اس آیت کے منافی نہیں کیونکہ حکم اکثریت پر لگتا ہے ۔ (معارف القرآن ) ۔
Top