Mutaliya-e-Quran - Al-Fath : 20
وَعَدَكُمُ اللّٰهُ مَغَانِمَ كَثِیْرَةً تَاْخُذُوْنَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هٰذِهٖ وَ كَفَّ اَیْدِیَ النَّاسِ عَنْكُمْ١ۚ وَ لِتَكُوْنَ اٰیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَ یَهْدِیَكُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ
وَعَدَكُمُ : وعدہ کیا تم سے اللّٰهُ : اللہ نے مَغَانِمَ كَثِيْرَةً : غنیمتیں کثرت سے تَاْخُذُوْنَهَا : تم لوگے انہیں فَعَجَّلَ : تو جلددیدی اس نے تمہیں لَكُمْ : تمہیں هٰذِهٖ : یہ وَكَفَّ : اور روک دئیے اَيْدِيَ النَّاسِ : ہاتھ لوگوں کے عَنْكُمْ ۚ : تم سے وَلِتَكُوْنَ اٰيَةً : اور تاکہ ہو ایک نشانی لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کیلئے وَيَهْدِيَكُمْ : اور وہ ہدایت دے تمہیں صِرَاطًا : ایک راستہ مُّسْتَقِيْمًا : سیدھا
اللہ تم سے بکثرت اموال غنیمت کا وعدہ کرتا ہے جنہیں تم حاصل کرو گے فوری طور پر تو یہ فتح اس نے تمہیں عطا کر دی اور لوگوں کے ہاتھ تمہارے خلاف اٹھنے سے روک دیے، تاکہ یہ مومنوں کے لیے ایک نشانی بن جائے اور اللہ سیدھے راستے کی طرف تمہیں ہدایت بخشے
[وَعَدَكُمُ اللّٰهُ : وعدہ کیا تم لوگوں سے اللہ نے ] [مَغَانِمَ كَثِيْرَةً : بہت سی غنیمتوں کا ] تَاْخُذُوْنَهَا [ تم لوگ حاصل کرو گے جن کو ] فَعَجَّلَ لَكُمْ [ پھر اس نے جلدی کردیا تمہارے لئے ] هٰذِهٖ [ اس (غنیمت ) کو ] وَكَفَّ [ اور اس نے باندھ دیا ] اَيْدِيَ النَّاسِ عَنْكُمْ ۚ [ لوگوں کے ہاتھوں کو تم سے ] وَلِتَكُوْنَ اٰيَةً [ اور تاکہ یہ (غنیمت ) ہوجائے ایک نشانی ] لِّــلْمُؤْمِنِيْنَ [ ان (سفر حدیبیہ والے ) مومنون کے لئے ] وَيَهْدِيَكُمْ [ اور تاکہ وہ رہنمائی کرے تمہاری ] صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًا [ ایک سیدھے راستے کی ] نوٹ۔ 1: آیت ۔ 18 ۔ میں اللہ تعالیٰ نے اس بیعت کے شرکاء سے اپنی رضا کا اعلان فرما دیا ہے ۔ اسی لیے اس کو بیعت رضوان کہتے ہیں، اس بیعت کے شرکاء کی مثال شرکاء غزوہ بدر کی سی ہے ۔ جیسا ان کے متعلق قرآن وحدیث میں رضائے الہی اور جنت کی بشارتیں ہیں اسی طرح بیعت رضوان کے لیے بھی یہ بشارت آئی ہے۔ شجرہ جس کا ذکر اس آیت میں آیا ہے ۔ ایک ببول کا درخت تھا ۔ مشہور یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد کچھ لوگ وہاں چل کرجاتے اور اس درخت کے نیچے نمازیں پڑھتے تھے۔ صحیحین میں ہے کہ حضرت طارق بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حج کے لیے گیا ، راستے میں میرا گزر ایسے لوگوں پر ہوا جو ایک مقام پر جمع تھے اور نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون سی مسجد ہے ۔ انہوں نے کہا یہ وہ درخت ہے جس کے نیچے بیعت رضوان ہوئی تھی ، اس کے بعد میں حضرت سعید بن مسیب کے پاس حاضر ہوا اور ان کو اس واقعہ کی خبر دی ، انہوں نے فرمایا کہ میرے والد ان لوگوں میں تھے جو اس بیعت میں شریک تھے ۔ انھوں نے مجھ سے فرمایا کہ جب ہم اگلے سال مکہ مکرمہ حاضر ہوئے تو ہم نے وہ درخت تلاش کیا لیکن ہمیں بھول ہوگئی اور اس کا پتہ نہیں لگا ۔ پھر حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا کہ صحابہ جو خود اس بیعت میں شریک تھے ، ان کو تو پتہ نہیں لگا اور تمہیں وہ معلوم ہوگیا ۔ عجیب بات ہے ، کیا تم ان سے زیادہ واقف ہو ۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعد میں لوگوں نے محض اپنے تخمینہ اور اندازہ سے کسی درخت کو متعین کرلیا اور اس کے نیچے حاضر ہونا اور نمازیں پڑھنا شروع کردیا ۔ حضرت عمر ؓ کو معلوم تھا کہ یہ وہ درخت نہیں ہے ۔ پھر خطرہ ابتلائے شرک کا لاحق ہوگیا ۔ اس لیے اس درخت کو کٹوا دیا ہو تو کیا بعید ہے۔ مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس آیت میں فتحا قریبا سے مراد فتح خیبر ہے ، خیبر درحقیقت ایک صوبہ کا نام ہے جس میں بہت سی بستیاں اور قلعے اور باغات شامل ہیں ابن اسحاق کی روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ ذی الحج 6 ھ میں حدیبیہ سے واپس مدینہ تشریف لائے ، محرم 7 ھ میں آپ غزوہ خیبر کے لئے تشریف لے گئے ۔ اور ماہ صفر 7 ھ میں خیبر فتح ہوا ۔ (معارف القرآن ) نوٹ ۔ 2: آیت ۔ 20 ۔ میں کف ایدی الناس عنکم کے الفاظ آئے ہیں ۔ یہاں الناس سے مراد قریش ہیں ۔ معاہدہ حدیبیہ میں دونوں فریق یعنی مسلمان اور قریش یہ پابندی قبول کرچکے تھے کہ دس سال تک ایک دوسرے کے خلاف کوئی جنگی اقدام نہیں کریں گے ۔ اس سے مسلمانوں کو یہ فائدہ پہنچا کہ انھیں خیبر کے یہودیوں کے خلاف اقدام کرنے کا اچھا موقع مل گیا اور یہ خیال کرکے کہ اب انکو قریش کی پشت پناہی نہیں حاصل ہوسکے گی ، یہودی بڑی جلدی حوصلہ ہار بیٹھے اس طرح یہ بات ثابت ہوگئی کہ معاہدہ حدیبیہ مسلمانوں کی شکست نہیں بلکہ ایک فتح عظیم اور آئندہ کی فتوحات کا دیباچہ ہے۔
Top