Mutaliya-e-Quran - Al-Maaida : 109
یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَا ذَاۤ اُجِبْتُمْ١ؕ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ
يَوْمَ : دن يَجْمَعُ : جمع کرے گا اللّٰهُ : اللہ الرُّسُلَ : رسول (جمع) فَيَقُوْلُ : پھر کہے گا مَاذَآ : کیا اُجِبْتُمْ : تمہیں جواب ملا قَالُوْا : وہ کہیں گے لَا عِلْمَ : نہیں خبر لَنَا : ہمیں اِنَّكَ : بیشک تو اَنْتَ : تو عَلَّامُ : جاننے والا الْغُيُوْبِ : چھپی باتیں
جس روز اللہ سب رسولوں کو جمع کر کے پو چھے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا ہے، تو وہ عرض کریں گے کہ ہمیں کچھ علم نہیں، آپ ہی تمام پوشیدہ حقیقتوں کو جانتے ہیں
يَوْمَ [ جس دن ] يَجْمَعُ [ جمع کرے گا ] اللّٰهُ [ اللہ ] الرُّسُلَ [ تمام رسولوں کو ] فَيَقُوْلُ [ پھر وہ کہے گا ] مَاذَآ [ کیا ] اُجِبْتُمْ ۭ [ جواب دیا گیا تم لوگوں کو ] قَالُوْا [ وہ کہیں گے ] لَا عِلْمَ لَنَا [ کسی قسم کا کوئی علم نہیں ہے ہمیں ] اِنَّكَ اَنْتَ [ بیشک تو ہی ] عَلَّامُ الْغُيُوْبِ [ تمام غیبوں کا خوب جاننے والا ہے ] ح و رــ: (ن ) ۔ حورا ۔ گھومنا ، واپس ہونا ۔ اِنَّهٗ ظَنَّ اَنْ لَّنْ يَّحُوْرَ [ بیشک اس نے گمان کیا کہ وہ ہرگز واپس نہیں ہوگا ] 84:14 ۔ (س) ۔ حورآنکھ کی سیاہی اور سفیدی کا بہت نمایاں ہونا ، آنکھ کا خوبصورت ہونا۔ احور مؤنث حوراء ، ج، حور ، افعل الوان وعیوب ہے ۔ خوبصورت آنکھ والا ۔ وَزَوَّجْنٰهُمْ بِحُوْرٍ عِيْنٍ [ اور ہم نے جوڑے بنادیئے ان کے خوبصورت آنکھوں والوں : والیوں سے ] 44:54 ۔ (مفاعلہ ) محاورۃ ۔ بات کو واپس کرنا یعنی ۔ (1) جواب دینا (2) نصیحت کرنا ۔ قَالَ لَهٗ صَاحِبُهٗ وَهُوَ يُحَاوِرُهٗٓ [ کہا اس سے اس کے ساتھی نے اس حال میں کہ وہ نصیحت کرتا تھا اس کو ] 18:37 ۔ حواری ۔ اسم نسبت ہے ، نصیحت والا ، مدد گار ۔ آیت زیر مطالعہ ۔ (تفاعل ) تحاورا ۔ باہم ایک دوسرے کی بات کا جواب دینا ۔ گفتگو کرنا ۔ وَاللّٰهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا [ اور اللہ سنتا ہے تم دونوں کی باہمی گفتگو ] 58:1 ۔ ترکیب : لاعلم پر لائے نفی جنس ہے اور الغیوب پر لام جنس ہے، اذ قال اللہ کا جملہ اذ سے شروع ہو رہا ہے ۔ اس لئے اس جملہ میں جتنے مضارع آئے ہیں ان سب کا ترجمہ ماضی میں ہوگا ۔ [ 2:11 ۔ 12 نوٹ۔ 1 دیکھیں ] کھلا حال ہے ۔ واشھد کے مخاطب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں ۔ اس کا مخاطب خود ذات باری تعالیٰ بھی ہوسکتی ہے ۔ نوٹ : 1 ۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ رسولوں سے پوچھے گا کہ تمہاری دعوت کا کیا جواب دیا گیا تھا ، تو وہ کہیں گے کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں ، غیب کا علم تو صرف آپ کو ہے ۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ہر رسول کی امت کے وہ لوگ جو ان کی وفات کے بعد پیدا ہوئے ، ان کے بارے میں تو یہ جواب صحیح ہے، لیکن وہ لوگ جو انہی کے ہاتھ پر ایمان لائے اور ان کے احکام کی پیروی کی ان کے سامنے کرتے رہے ، ان کے بارے میں یہ کہنا کیسے صحیح ہوگا ، اس بات کو سمجھ لیں ۔ ایک انسان کسی دوسرے انسان کے سامنے ہونے کے باوجود اس کے ایمان وعمل کی گواہی اگر دے سکتا ہے تو غلبہ گمان کے اعتبار سے دے سکتا ہے ، ورنہ دلوں میں نیت اور حقیقی یعنی قلبی ایمان کسی کو وحی الہی کے بغیر معلوم نہیں ہوسکتے ، اور ہر امت میں منافقین کے گروہ رہے ہیں ، جو شخص اپنے اپ کو مسلمان کہے اور احکام خداوندی کی پیروی کرے، انبیاء کرام اور ان کی امتیں ان کو دنیا میں مومن کہنے پر مجبور ہیں ، خواہ وہ دل میں مومن مخلص ہو یا منافق ، اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” ہم ظاہر پر حکم جاری کرتے ہیں مخفی رازوں کا متولی اللہ ہے ‘ اسی ضابطہ کے تحت دنیا میں تو انبیاء اکرام اور ان کے خلفاء اور علماء ظاہر پر حسن ظن کے مطابق کسی کے مومن ہونے کی گواہی دے سکتے تھے، لیکن آج وہ دنیا ختم ہوچکی ہے جس کا مدار ظن و گمان پر تھا ، یہ میدان حشر ہے جہاں حقائق کا آشکارا کیا جائے گا ۔ اس لئے رسولوں کا یہ جواب صحیح ہے کہ ہمیں حقیقت کا کوئی علم نہیں ہے ۔ (معارف القرآن سے ماخوذ) نوٹ : 2 ۔ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو صلیب پر پھانسی دی گئی تھی ۔ یہ بات خلاف واقعہ ہے ۔ اس لئے قرآن اس کی تردید کرتا ہے ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کے متعلق عیسائیوں کا جو عقیدہ ہے ، وہ مطابق واقعہ ہے ۔ اس لئے قرآن ان کی تصدیق کرتا ہے ۔ لیکن ان معجزات کو دلیل بنا کر کچھ عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو الوہیت کا حامل اور کچھ عیسائی ان کو الوہیت میں شریک قرار دیتے ہیں ، یہ بات بھی خلاف واقعہ ہے۔ اس لئے قرآن اس کی بھی تردید کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ وہ یہ معجزات اللہ تعالیٰ کی اجازت سے دکھاتے تھے ۔
Top