Mutaliya-e-Quran - Adh-Dhaariyat : 34
مُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُسْرِفِیْنَ
مُّسَوَّمَةً : نشان لگے ہوئے ہیں عِنْدَ رَبِّكَ : تیرے رب کے ہاں لِلْمُسْرِفِيْنَ : حد سے بڑھنے والوں کے لیے
جو آپ کے رب کے ہاں حد سے گزر جانے والوں کے لیے نشان زدہ ہیں"
مُّسَوَّمَةً [ نشان لگے ہوئے ] عِنْدَ رَبِّكَ [ آپ کے رب کے پاس ] لِلْمُسْرِفِيْنَ [ حد سے بڑھنے والوں کے لیے ] نوٹ۔ 2: آیت ۔ 34 اور 35 کے درمیان یہ قصہ چھوڑ دیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس یہ فرشتے کس طرح حضرت لوط (علیہ السلام) کے ہاں پہنچے اور وہ ان ان کے اور قوم لوط کے درمیان کیا کچھ پیش آیا ۔ یہ تفصیلات سورة ہود، الحجر ، اور العنکبوت میں گزر چکی ہیں، یہاں صرف آخری وقت کا ذکر ہے جب اس قوم پر عذاب نازل ہونے والا تھا ۔ (تفہیم القرآن ) فرشتوں کی بات آیت ۔ 34 پر ختم ہوگئی ہے۔ اب آگے کی سرگزشت خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے کہ ان کے بعد اس نے انکے ساتھ کیا معاملہ کیا ۔ (تدبر قرآن ) ۔ آیت ۔ 37 ۔ میں نشانی سے مراد بحیرہ مردار ہے جس کا جنوبی علاقہ آج بھی ایک عظیم الشان تباہی کے آثار پیش کررہا ہے ۔ (تفہیم القرآن ) نوٹ ۔ 1: آیت 34 میں ہے کہ ایک وقت تک مزے کرلو ۔ اس بارے میں دو رائے ہیں کہ اس سے کون سی مہلت مراد ہے ۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ سورة ہود کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے کہ جب ثمود کے لوگوں نے اونٹنی کو ہلاک کردیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو خبردار کردیا گیا کہ تین دن تک مزے کرلو ، اس کے بعد تم پر عذاب آئے گا ۔ دوسری رائے یہ ہے کہ یہ بات حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی دعوت کے آغاز میں اپنی قوم سے فرمائی تھی کہ تم اگر توبہ وایمان کی راہ اختیار نہ کرو گے تو ایک خاص وقت تک ہی عیش کرنے کہ مہلت نصیب ہوسکے گی ۔ اس کے بعد تم پر عذاب آجائے گا ۔ دوسری رائے زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ۔ کیونکہ آگے کی آیت میں ہے کہ انھون نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی ، یہ بات بتاتی ہے کہ جس مہلت کا یہاں ذکر کیا جارہا ہے وہ سرتابی سے پہلے دی گئی تھی اور انہوں نے سرتابی اس تنیبہ کے بعد کی ۔ اس کے برعکس سورة ہود والی آیت میں جس مہلت کا ذکر کیا گیا ہے وہ ان کی طرف سے آخری اور فیصلہ کن سرتابی کا ارتکاب ہوجانے کے بعد دی گئی تھی ۔ (تفہیم القرآن )
Top