Mutaliya-e-Quran - Adh-Dhaariyat : 56
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ
وَمَا : اور نہیں خَلَقْتُ الْجِنَّ : پیدا کیا میں نے جنوں کو وَالْاِنْسَ : اور انسانوں کو اِلَّا : مگر لِيَعْبُدُوْنِ : اس لیے تاکہ وہ میری عبادت کریں
میں نے جن اور انسانوں کو اِس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں
وَمَا خَلَقْتُ [ اور میں نے نہیں پیدا کیا ] الْجِنَّ وَالْاِنْسَ [ جنوں کو اور انسانوں کو ] اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ [ سوائے اس کے کہ وہ بندگی کریں میری ] نوٹ۔ 4: آیت ۔ 56 ۔ کی مراد یہ ہے کہ ہم نے ان کی تخلیق اس انداز پر کی ہے کہ ان میں عبادت کرنے کی استعداد اور صلاحیت ہو ۔ چناچہ ہر جن وانس کی فطرت میں یہ استعداد قدرتی طور پر موجود ہے ۔ پھر کوئی اس استعداد کو صحیح مصرف میں خرچ کرکے کامیاب ہوتا ہے اور کوئی اس استعداد کو اپنی خواہشات میں ضائع کردیتا ہے ۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی بنادیتے ہیں یا مجوسی ۔ (معارف القرآن ) اس آیت میں عبادت کا لفظ محض نماز روزے اور اس نوعیت کی دوسری عبادات کے معنی میں استعمال نہیں کیا گیا ہے کہ کوئی شخص اس کا مطلب یہ لے لیے کہ جن اور انسان صرف نماز پڑھنے ، روزے رکھنے اور تسبیح وتہلیل کرنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ۔ اگرچہ یہ مفہوم بھی اس میں شامل ہے مگر یہ اس کا پورا مفہوم نہیں ہے۔ اس کا پورا مفہوم یہ ہے کہ جن اور انسان اللہ کے سوا کسی اور کی پرستش اطاعت اور فرمانبرداری کے لیے پیدا نہیں کیے گئے ہیں ۔ ان کا کام کسی اور کے بنائے ہوئے دین (نظام حیات ) کی پیروی کرنا ، کسی اور کو اپنی قسمتوں کو بگاڑنے اور بنانے والا سمجھنا اور کسی دوسری ہستی کے آگے دعا کے لیے یہ ہاتھ پھیلانا نہیں ہے۔ (تفہیم القرآن ) ایک اطاعت وہ بھی ہے جو بدرجہ مجبوری اور بےدلی سے کی جاتی ہے ۔ یہ غلامی ہے، بندگی نہیں ہے ، جب کسی ہستی کے احسانات اور اس کی جودوسخا کے احساس سے انسان کے اندر سے ایک جذبہ شکر پھوٹ بہتا ہے ، پھر انسان اس جذبہ میں ڈوب کر اور ہر طرف سے ٹوٹ کر اس ہستی سے محبت کرتا ہے اور اسی جذبے سے پوری دلی آمادگی کے ساتھ دل وجان سے اس کی اطاعت کرتا ہے تو یہ بندگی ہے، یہ عبادت ہے ، عبادت کی یہ استعداد انسان کی فطرت میں lnbuilt ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس فطری بیٹری کو چارج کیا جائے اور پھر چارج رکھا جائے ۔ جس طرح سیل فون کو ہم وفقہ وقفہ سے چارجر پر لگاتے رہتے ہیں ۔ نماز ، روزہ ، تسبیح وتہلیل وغیرہ اس بیٹری کے چار جر ہیں ۔
Top