Mutaliya-e-Quran - An-Najm : 39
وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ
وَاَنْ لَّيْسَ : اور یہ کہ نہیں لِلْاِنْسَانِ : انسان کے لیے اِلَّا مَا سَعٰى : مگر جو اس نے کوشش کی
اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اُس نے سعی کی ہے
وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ [ اور (یہ ) کہ نہیں ہے انسان کے لیے ] اِلَّا مَا [ سوائے اس کے جو ] سَعٰى [اس نے کوشش کی ] آیت ۔ 39 ۔ کو بعض لوگ معاشیات پر غلط طریقے سے منطبق کرکے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی محنت کی کمائی (Eeamed lncome ) کے سوا کسی چیز کا جائز مالک نہیں ہوسکتا ۔ لیکن یہ بات قرآن مجید کے احکام سے ٹکراتی ہے۔ مثلا قانون وراثت جس کی رو سے ایک شخص کے ترکے میں سے بہت سے افراد حصہ پاتے ہیں درآنحالیکہ یہ میراث ان کی اپنی محنت کی کمائی نہیں ہوتی ۔ اسی طرح احکام زکوۃ و صدقات ، جن کی رو سے ایک آدمی کے مال کے دوسرے لوگ جائز مالک ہوتے ہیں حالانکہ اس مال کو پیدا کرنے میں ان کی محنت کا کوئی حصہ نہیں ہوتا ۔ اس لیے قرآن کی کسی ایک آیت کو لے کر اس سے اپنے نتائج نکالنا جو قرآن ہی کی دوسری تعلیمات سے متصادم ہوں ، قرآن کی منشا کے بالکل خلاف ہے۔ بعض دوسرے لوگ اس آیت کو آخرت سے متعلق مان کر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص اپنے عمل کے اجر کو دوسرے کی طرف منتقل کرسکے ؟ اس سوال کا جواب اگر نفی میں ہو تو دوسرے کے حق میں دعائے استغفار ، ایصال ثواب ، حج بدل وغیرہ سب ناجائز ہوجاتے ہیں ۔ مگر یہ انتہائی نقطہ نظر اہل اسلام میں سے معتزلہ کے سوا کسی نے اختیار نہیں کیا ۔ جبکہ اہل سنت دوسروں کے حق میں دعائے استغفار کا نافع ہونا بالا اتفاق مانتے ہیں ۔ کیونکہ یہ قرآن سے ثابت ہے۔ البتہ ایصال ثواب میں ان کے درمیان اصولا نہیں بلکہ صرف تفصیلات میں اختلاف ہے، امام مالک اور امام شافعی فرماتے ہیں کہ خالص بدنی عبادات مثلا نماز ، روزہ اور تلاوت قرآن وغیرہ کا ثواب دوسرے کو نہیں پہنچ سکتا ، البتہ مالی عبادات مثلا صدقہ یا مالی وبدنی مرکب عبادات مثلا حج کا ثواب دوسرے کو پہنچ سکتا ہے ۔ جبکہ حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ انسان اپنے ہر نیک عمل کا ثواب دوسرے کو بخش سکتا ہے خواہ خالص بدنی ہوں مالی ہوں ، یامالی وبدنی مرکب ہوں ، یہ بات بکثرت احادیث سے ثابت ہے۔ مثلا حضرت عبداللہ بن عمر وبن لعاص فرماتے ہیں کہ ان کے دادا العاص نے زمانہ جاہلیت میں سواونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی تھی ، ان کے چچا ہشام بن العاص نے اپنے حصے کے پچاس اونٹ ذبح کردیے ان کے والد حضرت عمرو بن العاص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ میں کیا کروں آپ ﷺ نے فرمایا اگر تمہارے باپ نے توحید کا اقرار کرلیا تھا تو تم ان کی طرف سے روزہ رکھو یا صدقہ کرو وہ ان کے لیے نافع ہوگا ، ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ میں اپنے والدین کی خدمت ان کی زندگی میں تو کرتا رہا ، ان کے مرنے کے بعد کیسے کروں ، آپ ﷺ نے فرمایا یہ بھی ان کی خدمت ہی ہے کہ ان کے مرنے کے بعد تو اپنی نماز کے ساتھ ان کے لیے بھی نماز پڑھے اور اپنے روزوں کے ساتھ ان کے لیے بھی روزے رکھے، ایک اور حدیث میں حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص کا قبرستان پر گزر ہو اور وہ گیارہ مرتبہ قل ہو اللہ احد پڑھ کر اس کا اجر مرنے والوں کو بخش دے تو جتنے مردے ہیں اتنا ہی اجر عطا کردیا جائے گا ۔ ایسی کثیر روایات ہیں جو ایک دوسرے کی تائید کررہی ہیں اور اس امر کی تصریح کررہی ہیں کہ ایصال ثواب نہ صرف ممکن ہے بلکہ ہر طرح کی عبادات اور نیکیوں کے ثواب کا ایصال ہوسکتا ہے البتہ اس ضمن میں یہ بات سمجھ لیں کہ نیک عمل کے دو فائدے ہیں ۔ ایک اس کے وہ نتائج جو عمل کرنے والے کی اپنی روح اور اخلاق پر مترتب ہوتے ہیں ، اور جن کی بنا پر وہ اللہ کے ہاں بھی جزا کا مستحق ہوتا ہے دوسرے اس کا وہ اجر ہے جو اللہ تعالیٰ بطور انعام اسے دیتا ہے ۔ ایصال ثواب کا تعلق پہلی چیز سے نہیں ہے بلکہ صرف دوسری چیز سے ہے اسی لیے اس کو ایصال جزا نہیں بلکہ ایصال ثواب کہا جاتا ہے ۔ (تفہیم القرآن ۔ ج 5 ۔ ص 215 تا 127 سے ماخوذ ) ۔
Top