Mutaliya-e-Quran - Al-Hadid : 16
اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ١ۙ وَ لَا یَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ
اَلَمْ يَاْنِ : کیا نہیں وقت آیا لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے ہیں اَنْ تَخْشَعَ : کہ جھک جائیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل لِذِكْرِ اللّٰهِ : اللہ کے ذکر کے لیے وَمَا نَزَلَ : اور جو کچھ اترا مِنَ الْحَقِّ ۙ : حق میں سے وَلَا يَكُوْنُوْا : اور نہ وہ ہوں كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح اُوْتُوا الْكِتٰبَ : جو دیئے گئے کتاب مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل فَطَالَ : تو لمبی ہوگئی عَلَيْهِمُ الْاَمَدُ : ان پر مدت فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ۭ : تو سخت ہوگئے ان کے دل وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ : اور بہت سے ان میں سے فٰسِقُوْنَ : نافرمان ہیں
کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور اُس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں اور وہ اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر ایک لمبی مدت اُن پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے اور آج ان میں سے اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں؟
[اَلَمْ يَاْنِ : کیا (ابھی) وقت نہیں آیا ] [لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ان کے لیے جو ایمان لائے ] [ اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ : کہ جھک جائیں ان کے دل ] [ لِذِكْرِ اللّٰهِ : اللہ کے ذکر کے لیے ] [ وَمَا نَزَلَ : اور اس کے لیے جو نازل ہوا ] [ مِنَ الْحَقِّ ۙ : الحق میں سے ] [وَلَا يَكُوْنُوْا : اور (کیا وقت نہیں آیا کہ) وہ لوگ نہ ہوں ] [ كَالَّذِيْنَ : ان کے جیسے جن کو ] [ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ : دی گئی کتاب اس سے پہلے ] [ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْاَمَدُ : پھر طویل ہوئی ان پر مدت ] [ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ۭ : پھر سخت ہوگئے ان کے دل ] [وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ : اور ان میں سے اکثر ] [ فٰسِقُوْنَ : نافرمانی کرنے والے ہیں ] نوٹ ۔ 1: خشوع قلب سے مراد دل کا نرم ہونا اور وعظ و نصیحت کو قبول کرنا ہے ۔ اور قرآن کے لیے خشوع یہ ہے کہ اس کے احکام ، اوامر ونواعی کی اطاعت کے لیے تیار ہوجائے اور اس پر عمل کرنے میں کسی سستی اور کمزوری کو راہ نہ دے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض مومنین کے قلوب میں عمل کے اعتبار سے کچھ سستی معلوم کی تو اس پر یہ آیت (نمبر ۔ 16) نازل ہوئی ۔ امام اعمش نے فرمایا کہ مدینہ پہنچنے کے بعد صحابہ کرام کو کچھ معاشی سہولتیں اور آرام ملا تو بعض حضرات میں عمل کی جدوجہد ، جون کی عادت تھی ، اس میں کچھ کمی اور سستی پائی گئی اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں مومنین کو مکمل خشوع اور عمل صالح کے لیے مستعد رہنے کی تعلیم ہے اور خشوع قلب ہی پر تمام اعمال کا مدار ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ سب سے پہلے جو چیز لوگوں سے اٹھائی جائے گی وہ خشوع ہے۔ (معارف القرآن ) نوٹ۔ 2: دل کی نرمی اگر وقتی ہو تو اس کے لیے خشوع قلب کی اصطلاع ہے لیکن کسی کی شخصیت میں یہ دل کی نرمی اگر مستقل صفت بن جائے تو اس کے لیے قرآن کی اصطلاح ہے ” ر ء فۃ “۔ اور اس صفت کی حامل شخصیت کو رءوف کہتے ہیں ۔ قرآن میں یہ اللہ تعالیٰ کی صفت کے طور پر آیا ہے ۔ صرف ایک جگہ ، سورة التوبہ ۔ 128، یہ لفظ رسول اللہ ﷺ کی صفت کے طور پر آیا ہے۔ انگریزی میں اس کو (empathy) کہتے ہیں جو ( Sympathy) (ہمدردی ) سے بلند تردرجہ کی خوبی مانی جاتی ہے ۔ (اپنی شخصیت میں اس خوبی کو اجاگر کرنے کے خواہشمند اصحاب اس کو مزید وضاحت جینے کا سیلقہ کورس میں دیکھ لیں ) اس حوالے سے اب یہ بات سمجھ لیں کہ ایمان لانے کے بعد عمل صالح کے تقاضوں کو طوعا اوکرھا پورا کرنا اسلام کا بنیادی تقاضا ہے ۔ لیکن اس کے آگے دلی آمادگی ، جذبے ، شوق اور پھر لگن کے ساتھ ان تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے درجہ بدرجہ ترقی کرکے درجہ احسان تک پہنچنے پر آمادہ کرنے کے لیے جو عوامل انسان کے لیے مہمیز کا کام کرتے ہیں ۔ ان میں سے دو بنیادی عوامل کا یہاں ذکر ہے۔ پہلا ہے رقت قلبی جو اوپر ہم سمجھ چکے ۔ دوسرا ہے اسلام کے نظریہ آخرت کو دل و دماغ میں حاضر رکھنا ۔ اس کا ذکر آیت ۔ 17 میں ہے کہ آئے دن تمہاری آنکھوں کے سامنے اللہ تعالیٰ مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو اور اس حقیقت کو دل و دماغ میں حاضر رکھو کہ اس طرح اللہ تمہیں بھی دوبارہ زندہ کرے گا اور پھر تم ان تمام مراحل سے گزرتے ہوئے اپنے اس انجام تک پہنچو گے جس کی خبر انبیاء ورسل دیتے آئے ہیں ۔ یہ دونوں عوامل جب مہمیز لگاتے ہیں تو انسان عمل صالح کے اس مرحلہ میں داخل ہوتا ہے جو صالح لوگوں میں سے کچھ کی زندگی میں عموما سب سے آخر میں آتا ہے ۔ اور وہ ہے اللہ کی راہ میں اپنی جان (یعنی وقت اور صلاحت ) اور مال خرچ کرنا ۔ اور جب کوئی بندہ اپنے ظروف و احوال میں رہتے ہوئے اپنے مقدور پھر دعوت و تبلیغ کی جدوجہد یعنی جہاد فی سبیل اللہ میں لگ جاتا ہے تو ہو صالحین کے زمرے سے ترقی کرکے شہداء کے زمرے میں شامل ہوجاتا ہے ۔ پھر یہ جہاد پارٹی ڈسپلن کے پریشر کے تحت نہ ہو ، نہ دیکھا دیکھی ہو ، نہ ہسکا ہوری ہو، بلکہ اللہ کے بندوں کو آگ کے گڑھے کی طرف بڑھتے دیکھ کر اور اپنے مسلمان بھائیوں کے اخروی انجام کو خطروں میں گھرا دیکھ کر دل میں جو کسک اور ٹیس اٹھتی ہے ، اس کے تحت وہ دعوت و تبلیغ میں اپنی جان اور اپنا مال کھپائے تو اخلاص کی پہلی شرط پوری ہوجائے گی ۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اس جدوجہد کے عوض نہ پارٹی میں واعلی عہدوں کی تمنا ہو اور نہ کسی داد وہش کی آرزو ہو ، بلکہ اس کا اجر صرف اللہ سے مطلوب ہو اور آخرت میں مطلوب ہو ۔ جہاد مع النفس کرتے ہوئے بندہ جب اپنے جہاد فی سبیل اللہ کی نیت اور اعمال کے اخلاص میں درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے اس کے تکمیلی مرحلہ میں داخل ہوتا ہے تو وہ شہدا کے زمرے سے ترقی کرکے صدیقین کے زمرے میں شامل ہوجاتا ہے ۔ یہ وہ بلندترین درجہ سے جہاں تک بندہ اپنے کسب سے رسائی حاصل کرسکتا ہے ۔ کیونکہ اس سے اوپر انبیاء (علیہم السلام) کا زمرہ ہے جس کا دروازہ بندہوچکا ہے لیکن جب یہ دروازہ کھلا ہوا تھا اس وقت بھی یہ رتبہ کسبی نہیں تھا بلکہ وہبی تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بلند درجات تو دور کی بات ہے ، خود ہدایت بھی کسبی نہیں بلکہ وہبی ہے ۔ اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ (اے نبی ﷺ ) بیشک آپ ﷺ ہدایت نہیں دیتے جس کو آپ چاہیں بلکہ اللہ ہدایت دیتا ہے جس کو وہ چاہتا ہے ۔ القصص ۔ 56) اس لیے جو کچھ بھی ہے سب وہبی ہے ۔ یہ اس کی دین ہے جس کو پروردگار دے ۔ لاریب فیہ یقینا دین تو اللہ ہی کی ہے لیکن عند الطلب ہے، بن مانگے نہیں ملتی سوائے نبوت کے جو بن مانگے ملتی تھی آیت لیس للانسان الا ما سعی [ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے سوائے اس کے جو اس نے کوشش کی ۔ النجم ۔ 39) اس لیے یہ رویہ درست نہیں ہے کہ سب کچھ اللہ کے حوالے کرکے انسان خود کو عمل سے فارغ کرلے ۔ درست طرز عمل یہ ہے کہ جس چیز کی طلب ہو انسان اس کے لیے کوشش کرے ، پھر کوشش کا نتیجہ اللہ کے حوالے کرے ، پھر جو نتیجہ نکلے اسے اپنا کارنامہ نہ سمجھے کیونکہ کوشش کا نتیجہ اللہ کی دین ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طلب اور سعی بندے کا کسب ہے اور نتیجہ اللہ کی دین ہے ۔
Top