بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mutaliya-e-Quran - Al-Hadid : 1
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ : تسبیح کی ہے۔ کرتی ہے لِلّٰهِ : اللہ ہی کے لیے مَا فِي السَّمٰوٰتِ : ہر اس چیز نے جو آسمانوں میں ہے وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین میں وَهُوَ الْعَزِيْزُ : اور وہ زبردست ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا ہے
اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اُس چیز نے جو زمین اور آسمانوں میں ہے، اور وہی زبردست دانا ہے
[سَبَّحَ لِلّٰهِ : تسیبح کرتی ہے اللہ کی ][مَا : (ہر) وہ چیز جو ][فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ : آسمانوں اور زمین میں ہے ][وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ : اور وہی بالا دست ہے حکمت والا ہے ] ترکیب : (آیت ۔ 1) سبح فعل ماضی ہے۔ لیکن یہاں یہ ایک آفاقی صداقت بیان کررہا ہے اس لیے اس کا ترجمہ حال میں ہوگا ۔ (دیکھیں آیت نمبر ۔ 2:49، نوٹ ۔ 2 ۔ ) نوٹ ۔ 1: یہ سورة سابق سورة الواقعہ کی مثنی ہے ۔ (یعنی یہ دونوں سورتیں جڑواں بہنیں ہیں ) اگرچہ دونوں میں مکی اور مدنی ہونے کے اعتبار سے زمانی اور مکانی بعد (دوری) ہے لیکن معنوی اعتبار سے دونوں میں بہت زیادہ ربط ہے ۔ سابقہ سورة میں یہ اصولی حقیقت واضح فرمائی گئی ہے کہ جزاء وسزا کا دن لازما آکے رہے گا اور اس دن لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے یعنی سابقون اولون ، اصحاب یمین اور اصحاب شمال ، اس سورة میں مسلمانوں کو سابقین اولین کی صف میں اپنی جگہ بنانے پر ابھارا گیا ہے ۔ (تدبر قرآن ) اس مقصد کے لیے سب سے پہلے (آیات زیر مطالعہ میں ) اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کی گئی ہیں تاکہ سامعین کو اچھی طرح یہ احساس ہوجائے کہ کس عظیم ہستی کی طرف سے ان کو مخاطب کیا جارہا ہے۔ اس کے بعد سلسلہ وار مضامین بیان ہوئے ہیں ۔ (تفہیم القرآن ) ۔ نوٹ ۔ 2: آیت ۔ 1 ۔ میں وھوالعزیز الحکیم آیا ہے ۔ لفظ ھو پہلے لانے سے حصر کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ یعنی بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ وہ عزیز اور حکیم ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک وہی ایسی ہستی ہے جو عزیز بھی ہے اور حکیم بھی ۔ عزیز کے معنی ہیں ایسی زبردست اور قادر وقاہر ہستی جس کے اختیارات پر کوئی تحدید (Limitation) نہ ہو ۔ اور حکیم کے معنی ہیں کہ ہو ہستی جو کچھ بھی کرتی ہے حکمت اور دانائی کے ساتھ کرتی ہے ۔ اس مقام پر ایک لطیف نکتہ اور بھی ہے جسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے قرآن مجید میں کم ہی مقامات ایسے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز کے ساتھ قوی ، مقتدر ، جبار اور ذوانتقام جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، اور یہ صرف ان مواقع پر ہوا ہے جہاں سلسلہ کلام اس بات کا متقاضی تھا کہ ظالموں اور نافرمانوں کو اللہ کی پکڑ سے ڈرایا جائے ۔ اس طرح کے گنتی کے چند مقامات کو چھوڑ کر باقی جہاں بھی اللہ تعالیٰ کے لیے عزیز کا لفظ استعمال کیا گیا ہے وہاں اس کے ساتھ حکیم ، علیم ، رحیم ، غفور ، وہاب اور حمید میں سے کوئی لفظ ضرور لایا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی ہستی ایسی ہو جسے بےپناہ طاقت حاصل ہو مگر اس کے ساتھ وہ نادان ، بےرحم ، بخیل اور بدسیرت ہو تو اس کے اقتدار کا نتیجہ ظلم کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا ، اسی لیے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز کے ساتھ اس کے حکیم ، علیم ، رحیم ، غفور، وہاب یا حمید ہونے کا ذکر لازما کیا گیا ہے تاکہ انسان یہ جان لے کہ جو خدا اس کائنات پر فرمانروائی کررہا ہے وہ ایک طرف تو کامل اقتدار رکھتا ہے اور اس کے ساتھ ہی تمام قابل تعریف صفات و کمالات اس کی ذات میں جمع ہیں۔ قرآن کے اس بیان کی پوری اہمیت وہ لوگ زیادہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جو حاکمیت (Sovereignty) کے مسئلہ پر فلسفہ سیاست اور فلسفہ قانون کی بحثوں سے واقف ہیں ۔ کسی غیر محدود اقتدار کا تصور کرتے ہی انسانی عقل لازما یہ مطالبہ کرتی ہے کہ ایسا اقتدار جس کو بھی حاصل ہو اسے ہر نقص سے پاک اور علم و حکمت میں کامل ہونا چاہیے ۔ کیونکہ اگر اس اقتدار کا حامل نادان ، جاہل ، بےرحم اور بدخو ہو تو اس کی حاکمیت سراسر ظلم وفسادہوگی ، اس لیے جن فلسفیوں نے کسی انسانی ادارے یا انسانوں کے مجموعے کو حاکمیت کا حامل قرار دیا ہے، ان کو یہ فرض کرنا پڑا ہے کہ وہ غلطی سے پاک ہوگا ۔ مگر ظاہر ہے کہ نہ تو غیر محدود حاکمیت فی الواقع کسی انسانی اقتدار کو حاصل ہوسکتی ہے اور نہی ہی یہ ممکن ہے کہ کوئی پارلیمنٹ یا قوم یاپارٹی اپنے محدود اختیار کو بےعیب طریقے سے استعمال کرسکے ۔ کیونکہ ایسی حکمت جس میں نادانی کا شائبہ نہ ہو اور ایسا علم جو تمام متعلقہ حقائق پر حاوی ہو سرے سے پوری نوع انسانی ہی کو حاصل نہیں ہے ، کجا کہ وہ کسی ادارے یا قوم کو نصیب ہوجائے ۔ ان حقائق کو نگاہ میں رکھ کر اگر کوئی غور کرے تو اسے محسوس ہوگا کہ قرآن اپنے اس بیان میں درحقیقت حاکمیت کا بالکل صحیح تصور پیش کررہا ہے ۔ (تفہیم القرآن سے ماخوذ)
Top