Mutaliya-e-Quran - Al-Hadid : 28
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهٖ یُؤْتِكُمْ كِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِهٖ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌۚۙ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو اتَّقُوا اللّٰهَ : اللہ سے ڈرو وَاٰمِنُوْا : اور ایمان لاؤ بِرَسُوْلِهٖ : اس کے رسول پر يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ : دے گا تم کو دوہرا حصہ مِنْ رَّحْمَتِهٖ : اپنی رحمت میں سے وَيَجْعَلْ لَّكُمْ : اور بخشے گا تم کو۔ بنا دے گا تمہارے لیے نُوْرًا : ایک نور تَمْشُوْنَ بِهٖ : تم چلو گے ساتھ اس کے وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۭ : اور بخش دے گا تم کو وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ : غفور رحیم ہے
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور اس کے رسولؐ پر ایمان لاؤ، اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دوہرا حصہ عطا فرمائے گا اور تمہیں وہ نور بخشے گا جس کی روشنی میں تم چلو گے، اور تمہارے قصور معاف کر دے گا، اللہ بڑا معاف کرنے والا اور مہربان ہے
[يٰٓاَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا : اے لوگو جو ایمان لائے ][ اتَّقُوا اللّٰهَ : تم لوگ تقویٰ اختیار کرو اللہ کا ][ وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهٖ : اور ایمان لائو اس کے رسول پر ][ يُؤْتِكُمْ : تو وہ دے گا تم لوگوں کو ][ كِفْلَيْنِ : دو حصّے ][ مِنْ رَّحْمَتِهٖ : اپنی رحمت میں سے ][ وَيَجْعَلْ لَكُمْ نُوْرًا : اور وہ بنائے گا تمہارے لیے ایک ایسا نور ][ تمشُوْنَ بِهٖ : تم لوگ چلو (پھرو) گے جس کے ساتھ ][ وَيَغْفِرْ لَكُمْ : اور وہ بخش دے گا تمہارے لیے (گناہوں کو)][وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ: اور اللہ بےانتہا بخشنے والا ہمیشہ رحم کرنے والا ہے ] نوٹ۔ 1 : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بنی اسرائیل کے رئیس لوگوں نے انجیل سے کھلی بغاوت شروع کردی۔ عیسائی علماء نے انھیں روکا تو ان کو قتل کردیا گیا۔ جو بچ رہے انھوں نے دیکھا کہ اگر ہم ان لوگوں میں مل جل کر رہے تو ہمارا بھی دین برباد ہوگا، اس لیے ان لوگوں نے اپنے اوپر یہ بات لازم کرلی کہ اب دنیا کی جائز لذتیں اور آرام بھی چھوڑ دیں۔ کسی جنگل یا پہاڑ میں بسر کریں یا خانہ بدوشوں کی زندگی گزاریں۔ ان کا یہ طریقہ چونکہ حالات سے مجبور ہو کر اپنے دین کی حفاظت کے لیے تھا اس لیے اصلاً یہ کوئی مذموم چیز نہ تھی۔ البتہ اللہ کی رضاجوئی کے لیے کسی چیز کو اپنے اوپر لازم کرلینے کے بعد اس میں کوتاہی یا خلاف ورزی کرنا گناہ ہے۔ جیسے نذر اور منت کا حکم ہے، جو کسی پر واجب نہیں ہے۔ لیکن جب کوئی شخص اللہ کے لیے کوئی منت مان لیتا ہے تو پھر اس کی پابندی واجب اور خلاف ورزی گناہ ہوجاتی ہے، مگر بعد میں رہبانیت اختیار کرنے والے بعض لوگوں نے رہبانیت ہی کو دنیا طلبی اور عیش و عشرت کا ذریعہ بنا لیا۔ کیونکہ عوام الناس ایسے لوگوں کے معتقد ہوئے تو تحائف اور نذرانے آنے لگے اور لوگوں کا ان کی طرف رجوع ہوا تو فواحش کی نوبت آنے لگی۔ آیت۔ 27 ۔ میں ایسے ہی لوگوں پر نکیر کی گئی ہے۔ (اور رہبانیت کا حق ادا کرنے والوں کے لیے ان کے اجر کا اعلان کیا گیا ہے۔ مرتب) صحیح بات یہ ہے کہ رہبانیت کے چند درجے ہیں۔ ایک یہ کہ کسی حلال یا مباح چیز کو اعتقادًا یا عملاً حرام قرار دے دے۔ یہ تو دین کی تحریف ہے۔ اس معنی کے اعتبار سے رہبانیت قطعاً حرام ہے۔ المائدہ کی آیت۔ 87 ۔ میں اسی کی ممانعت ہے کہ اس کو حرام مت کرو جس کو اللہ نے حلال کیا ہے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ کسی مباح کام کے کرنے کو حرام قرار نہیں دیتا لیکن کسی دنیوی یا دینی ضرورت کی وجہ سے اس کو چھوڑنے کی پا بندی کرتا ہے۔ جیسے کسی بیماری کے خطرہ سے کسی مباح چیز سے پرہیز کرے۔ اور دینی ضرورت جیسے جھوٹ، غیبت وغیرہ سے بچنے کے لیے کوئی شخص لوگوں سے اختلاط (یعنی ملنا جلنا) چھوڑ دے۔ اس ترک کی پابندی علاج اور دوا کے طور پر اس وقت تک کرے جب تک یہ رذیلہ (یعنی نفس کی کمزوری) دور نہ ہوجائے۔ جیسے صوفیائے کرام مبتدی کو کم کھانے، کم سونے اور کم میل جول کی تاکید کرتے ہیں کہ یہ نفس کے ساتھ ایک مجاہدہ ہوتا ہے اسے اعتدال پر لانے کے لیے۔ جب نفس پر قابو ہوجاتا ہے کہ ناجائز تک پہنچنے کا خطرہ نہ رہے تو یہ پرہیز چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ دراصل رہبانیت نہیں بلکہ تقویٰ ہے جو دین میں مطلوب ہے اور صحابہ و تابعین اور ائمہ دین سے ثابت ہے۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ کسی مباح کو حرام تو قرار نہیں دیتا مگر اس کے استعمال کو چھوڑنا ثواب اور افضل جان کر اس سے پرہیز کرتا ہے۔ یہ غلوفی الدین ہے جس سے احادیث کثیرہ میں منع کیا گیا ہے۔ اور جس حدیث میں ہے کہ اسلام میں رہبانیت نہیں، اس سے مراد ایسا ہی ترک مباحات ہے کہ ان کے ترک کو افضل اور ثواب سمجھے۔ (معارف قرآن، جلد ہشتم، صفحہ 326 تا 329 سے ماخوذ) نوٹ۔ 2 آیت ۔ 28 ۔ کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ یہاں خطاب ان لوگوں سے ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے ہوئے تھے۔ ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ اب محمد ﷺ پر ایمان لائو، اس پر تمہیں دوہرا اجر ملے گا، دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ خطاب محمد ﷺ پر ایمان لانے والوں سے ہے۔ ان سے ارشاد ہو رہا ہے کہ تم محض زبان سے آپ ﷺ کی نبوت کا اقرار کر کے نہ رہ جائو بلکہ ایمان لانے کا حق ادا کرو۔ اس پر تمہیں دوہرا اجر ملے گا۔ ایک اسلام قبول کرنے کا اور دوسرا اسلام میں اخلاص اختیار کرنے کا۔ پہلی تفسیر کی تائید القصص کی آیات 52 تا 54 سے ہوتی ہے۔ (جس میں ہے کہ اہل کتاب میں سے جو لوگ قرآن پر ایمان لاتے ہیں انھیں ان کا اجر دو مرتبہ دیا جائے گا) دوسری تفسیر کی تائید سورة سبا کی آیت۔ 37 ۔ کرتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ مومنین صالحین کے لیے دوگنا اجر ہے۔ دلیل کے اعتبار سے دونوں تفسیروں کا وزن برابر ہے۔ لیکن اس سورة کا پورا مضمون دوسری تفسیر کی تائید کرتا ہے۔ اس سورت میں شروع سے وہی لوگ مخاطب ہیں جو رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا اقرار کر کے اسلام میں داخل ہوئے تھے اور پوری سورت میں انھیں کو دعوت دی گئی ہے کہ اخلاص کے ساتھ ایمان لانے کا حق ادا کریں۔ (تفہیم القرآن) نوٹ۔ 3 پھر آیت۔ 28 ۔ میں ہے کہ اللہ کے تقویٰ اور رسول اللہ ﷺ کی پیروی کا حق ادا کرو گے تو اللہ تمہیں ایسا نور عطا کرے گا جس کی روشنی میں تم چلو گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں علم و بصیرت کا وہ نور عطا فرمائے گا جس کی روشنی میں تم کو قدم قدم پر صاف نظر آتا رہے گا کہ زندگی کے مختلف معاملات میں جاہلیت کی ٹیٹرھی راہوں کے جنگل میں اسلام کی سیدھی راہ کون سی ہے اور آخرت میں وہ نور بخشے گا جس کا ذکر آیت۔ 12 ۔ میں گزر چکا ہے۔ (تفہیم القرآن)
Top