Mutaliya-e-Quran - Al-Hashr : 18
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوا : ایمان والو اتَّقُوا اللّٰهَ : تم اللہ سے ڈرو وَلْتَنْظُرْ : اور چاہیے کہ دیکھے نَفْسٌ : ہر شخص مَّا قَدَّمَتْ : کیا اس نے آگے بھیجا لِغَدٍ ۚ : کل کے لئے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور تم ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ خَبِيْرٌۢ : باخبر بِمَا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ یقیناً تمہارے اُن سب اعمال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو
[يٰٓاَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا : اے لوگو جو ایمان لائے ][ اتَّقُوا اللّٰهَ : تم لوگ تقوٰی اختیار کرو اللہ کا ][وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ: اور چاہیے کہ دیکھے ہر ایک جان (شخص)][ مَا قَدَّمَتْ : اس نے کہا آگے بھیجا ][لِغَدٍ : کل کے لیے ][ وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور تم لوگ ڈرو اللہ (کی باز پرس سے)][ان اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ: بیشک اللہ باخبر ہے ][بِمَا تَعْمَلُوْنَ : اس سے جو تم لوگ کرتے ہو ] نوٹ۔ 1 : آیت۔ 18 ۔ میں قیامت کا لفظ غد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جس کے معنی ہیں آنے والا کل۔ اس میں اشارہ ہے کہ آخرت کے مقابلے میں دنیا نہایت قلیل و مختصر ہے کیونکہ آخرت دائمی ہے جس کی کوئی انتہا اور انقطاع نہیں ہے۔ نیز یہ کہ قیامت دور نہیں بلکہ قریب ہے کیونکہ جب ایک انسان مرجاتا ہے تو اس کی قیامت قائم ہوجاتی ہے اور آخرت کے مقابلہ میں دنیا ایک دن کی مانند ہے۔ حدیث میں ہے کہ اَلدُّنْیَا یَوْمٌ وَلَنَا فِیْہِ صَوْمٌ یعنی ساری دنیا ایک دن ہے اور ہمارے لیے اس (دن) میں روزہ ہے۔ (معارف القرآن سے ماخوذ) نوٹ۔ 2 : اس آیت میں ایک حکیمانہ نکتہ یہ بھی ہے کہ اس میں ہر شخص کو آپ ہی اپنا محتسب بنایا گیا ہے۔ جب تک کسی شخص میں خود اپنے برے بھلے کی تمیز پیدا نہ ہوجائے، اس کو یہ احساس سرے سے ہوتا ہی نہیں کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ اس کے مستقبل کو سنوارنے والا ہے یا بگاڑنے والا۔ اور جب اس کے اندر یہ حس بیدار ہوجائے تو اسے خود ہی اپنا حساب لگا کر یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ اپنا وقت، اپنا سرمایہ، اپنی محنت، اپنی قابلیتیں اور اپنی کوششیں جس راہ میں خرچ کر رہا ہے وہ اسے جنت کی طرف لے جا رہی ہیں یا جہنم کی طرف۔ یہ دیکھنا اس کے اپنے ہی مفاد کا تقاضہ ہے، نہ دیکھے گا تو آپ اپنا ہی مستقبل خراب کرے گا۔ (تفہیم القرآن) یہ حقیقت بھی ذہن نشین کرلیں کہ خود احتسابی نہ کرنا دراصل ساری برائیوں کی جڑ ہے۔ جب کوئی شخص خود احتسابی سے کنی کترانا شروع کرتا ہے تو پھر رفتہ رفتہ آخرت اس کے ذہن سے اوجھل ہوجاتی ہے یا اسے بہت دور نظر آتی ہے۔ اس طرح وہ آخرت سے بےپرواہ ہوجاتا ہے۔ جب انسان آخرت سے بےپرواہ ہوجاتا تو پھر وہ اللہ کو بھولنا شروع کرتا ہے۔ زندگی کی گہما گہمی میں اسے اپنا تجربہ، اپنی مہارت، اپنی محنت نظر آتی ہے۔ اسے قدرت کی مداخلت، اپنی غلطی، چانس، بیڈلک، گڈلک، غرضیکہ اسے سب کچھ نظر آتا ہے، اگر نظر نہیں آتا تو فاعل حقیقی یعنی اللہ نظر نہیں آتا۔ اس طرح انسان اللہ کو بھول جاتا ہے۔ اور خدا فراموشی کا لازمی نتیجہ خود فراموشی۔ پھر وہ بھول جاتا ہے کہ اس دنیا میں اس کی کیا حیثیت ہے اور وہ یہاں کیا کرنے کے لیے آیا ہے۔ پھر انسان اپنی غلط حیثیت متعین کر کے خود کو ایک شتر بےمہار سمجھ بیٹھتا ہے۔ اس طرح اس کی سوچ اس کا نظریہ، اس کی سعی، اس کا عمل، غرضیکہ اس کی پوری زندگی ایک غلط رخ پر پڑجاتی ہے۔ پھر جب اسے پیویلین میں واپس بلایا جاتا ہے تو وہ سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ کیا کرنے آئے تھے اور کیا کر چلے۔
Top