Mutaliya-e-Quran - Al-Qalam : 17
اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَاۤ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ١ۚ اِذْ اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِیْنَۙ
اِنَّا : بیشک ہم نے بَلَوْنٰهُمْ : آزمائش میں ڈالا ہم نے ان کو كَمَا بَلَوْنَآ : جیسا کہ آزمایا ہم نے اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ : باغ والوں کو اِذْ اَقْسَمُوْا : جب انہوں نے قسم کھائی لَيَصْرِمُنَّهَا : البتہ ضرور کاٹ لیں گے اس کو مُصْبِحِيْنَ : صبح سویرے
ہم نے اِن (اہل مکہ) کو اُسی طرح آزمائش میں ڈالا ہے جس طرح ایک باغ کے مالکوں کو آزمائش میں ڈالا تھا، جب اُنہوں نے قسم کھائی کہ صبح سویرے ضرور اپنے باغ کے پھل توڑیں گے
[اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ : بیشک ہم نے آزمائش میں ڈالا ان کو ][ كَمَا بَلَوْنَآ : جیسے ہم نے آزمایا ][ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ ۚ: باغ والوں کو ][ اِذْ اَقْسَمُوْا : جب انھوں نے قسم کھائی ][ لَيَصْرِمُنَّهَا : ہم لازماً کاٹیں گے اس (باغ کی فصل) کو ][ مُصْبِحِيْنَ : صبح کرنے والے ہوتے ہوئے ] ص ر م [ صَرْمًا : (ض) (1) کسی چیز کا ٹوٹنا (لازم) کسی چیز کو کاٹنا (متعدی) ۔ زیر مطالعہ آیت۔ 17 ۔] ترکیب : (آیت۔ 17) بَلَوْنٰھُمْ میں ھُمْ کی ضمیر اہل مکہ کے لیے ہے۔ اَقْسَمُوْا میں شامل ھُمْ کی ضمیر فاعلی اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ کے لیے ہے۔ نوٹ۔ 1: بَلَوْنٰھُمْ میں ضمیر ھُمْ کا مرجع ظاہر ہے کہ وہی لوگ ہوں گے جن کا کردار اوپر زیر بحث آیا ہے۔ یہ اس بات کا واضح قرینہ ہے کہ وہ کردار کسی معین شخص کا نہیں بلکہ قریش کی پوری قیادت کا ہے، ورنہ جمع کی جگہ واحد ضمیر آتی۔ اسی طرح یہاں زبان کا ایک دوسرا نکتہ بھی قابل لحاظ ہے۔ یہاں لفظ اَلْجَنَّۃِ پر الف لام داخل ہے جس سے گمان ہوتا ہے کہ یہ کسی خاص باغ والوں کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ تمثیلات میں لام تعریف یا اَلَّذِیْ اور اَلَّتِیْ وغیرہ جو آتے ہیں تو اس سے مقصود یہ نہیں ہوتا کہ کوئی معین ذات مدنظر ہے بلکہ اس سے مقصود صرف صورت حال کو مشخص و مصور کرنا ہوتا ہے تاکہ قاری کے سامنے واقعہ کی پوری تفصیل آجائے۔ اس وجہ سے یہاں کسی خاص باغ کے مالکوں کی جستجو کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ یہ ایک خاکہ ہے جس میں قریش کے لیڈروں کے ذہن اور ان کے انجام کی تصویر اس طرح کھینچ دی گئی ہے کہ اس کا کوئی گوشہ مخفی نہیں رہ گیا ہے۔ (تدبر قرآن)
Top