Mutaliya-e-Quran - Al-A'raaf : 19
وَ یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَیْثُ شِئْتُمَا وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَيٰٓاٰدَمُ : اور اے آدم اسْكُنْ : رہو اَنْتَ : تو وَزَوْجُكَ : اور تیری بیوی الْجَنَّةَ : جنت فَكُلَا : تم دونوں کھاؤ مِنْ حَيْثُ : جہاں سے شِئْتُمَا : تم چاہو وَلَا تَقْرَبَا : اور نہ قریب جانا هٰذِهِ : اس الشَّجَرَةَ : درخت فَتَكُوْنَا : پس ہوجاؤ گے مِنَ : سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور اے آدمؑ، تو اور تیری بیوی، دونوں اس جنت میں رہو، جہاں جس چیز کو تمہارا جی چاہے کھاؤ، مگر اس درخت کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ ظالموں میں سے ہو جاؤ گے"
وَيٰٓاٰدَمُ [ اور اے آدم ] اسْكُنْ [ سکونت اختیار کرو ] اَنْتَ [ تم ] وَزَوْجُكَ [ اور تمہاری بیوی ] الْجَنَّةَ [ اس باغ میں ] فَكُلَا [ پھر تم دونوں کھاؤ] مِنْ حَيْثُ شِـئْتُمَا [ تم دونوں چاہو ] وَلَا تَقْرَبَا [ اور تم دونوں قریب مت جانا ] هٰذِهِ الشَّجَرَةَ [ اس درخت کے ] فَتَكُوْنَا [ ورنہ تم دونوں ہوجاؤ گے ] مِنَ الظّٰلِمِيْنَ [ ظلم کرنے والوں سے ] وس وس : (رباعی ) وسوسۃ ۔ کسی کے ذہن میں برا خیال ڈالنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 20 ۔ وسواس ۔ اسم ذات ہے ۔ براخیال ۔ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ ڏ الْخَنَّاسِ [ پیچھے ہٹنے والے برے خیال کی برائی سے ] 114:4 ن ص ح : (ف) نصحا ــ: کوئی ایسی بات یا کام کرنا جس میں دوسرے کی بھلائی ہو اور اپنی کوئی غرض نہ ہو ۔ (1) خیرخواہی کرنا ۔ (2) خالص ہونا ۔ صاف ہونا ۔ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّيْ وَنَصَحْتُ لَكُمْ [ بیشک میں پہنچا چکا ہوں اور اپنے رب کے پیغام کو اور میں نے خیر خواہی کی ہے تمہارے لیے ] 7:79 ۔ وَلَا عَلَي الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ مَا يُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ [ اور ان لوگوں پر جو نہیں پاتے اس کو جو وہ خرچ کریں، کوئی حرج نہیں ہے جب وہ لوگ دل سے صاف ہوئے اللہ کے لیے اور اس کے رسول کے لئے ] 9:91 ۔ نصح ۔ اسم ذات بھی ہے ۔ بےلوث خیر خواہی ۔ وَلَا يَنْفَعُكُمْ نُصْحِيْٓ [ اور تم کو نفع نہیں دے گی میری بےلوث خیرخواہی ] 11:34 ۔ ناصح ، اسم الفاعل ہے ۔ خیرخواہی کرنے والا زیر مطالعہ آیت ۔ 21 ۔ نصوح ، فعول کے وزن پر مبالغہ ہے۔ بےانتہاخالص ۔ تُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا [ تم لوگ توبہ کرو اللہ سے بےانتہا خالص توبہ ] 66:8 ۔ طق ۔ (س) طفقا ۔ کسی کام کو شروع کرنے یا کرنے لگنے کا مفہوم دیتا ہے ۔ (دیکھیں آیت نمبر ۔ 2:216، نوٹ ۔ 1) خ ص: (ض) ۔ خصفا ۔ سینا ، ٹانکنا ۔ چپکانا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 22 ترکیب : (آیت ۔ 19) فتکونا کا فاسببیہ ہے ۔ اس لیے نون اعرابی گرا ہوا ہے۔ نوٹ ۔ 1: گذشتہ چند آیات میں حضرت آدم (علیہ السلام) اور ابلیس کا جو واقعہ ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے مطالعہ سے چند اہم حقائق واضح طور پر سامنے آتے ہیں ۔ (1) انسان کے اندر شرم وحیاء کا ایک فطری جذبہ ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ یہ شرم انسان کے اندر تہذیب کے ارتقاء سے پیدا نہیں ہوئی ہے ، جیسا کہ بعض مغربی مفکرین نے قیاس کیا ہے ، بلکہ درحقیقت یہ وہ فطری چیز ہے جو اول روز سے انسان میں موجود تھی ۔ (2) شیطان اپنی بڑائی کا خود مدعی تھا جبکہ انسان نے اپنی بڑائی کا خود دعویٰ نہیں کیا بلکہ بڑائی اسے دی گئی ہے ۔ (یعنی جو انسان خود بڑائی کرے وہ دراصل شیطان کا شاگرد ہے کیونکہ یہ انسانی نہیں بلکہ شیطانی عمل ہے ۔ مرتب ۔ (3) شیطان نے خالص غرور اور تکبر کی بنا پر اللہ کی نافرمانی کی جبکہ انسان نے نافرمانی کو خود اختیار نہیں کیا بلکہ شیطان کے بہکانے سے وہ اس میں مبتلا ہوا۔ (4) انسان نے شر کی کھلی دعوت کو قبول نہیں کیا بلکہ داعی شرکو داعی خیر بن کر اس کے سامنے آنا پڑا ۔ وہ پستی کی طرف پستی کی طلب میں نہیں گیا بلکہ اس دھوکے میں گیا کہ یہ راستہ اسے بلندی کی طرف لے جائے گا ۔ (5) عام طور پر یہ جو مشہور ہوگیا ہے کہ شیطان نے پہلے بی بی حوا کو دام فریب میں گرفتار کیا پھر انہیں حضرت آدم (علیہ السلام) کو ورغلانے کا آلہ کار بنایا ، قرآن اس کی تردید کرتا ہے ۔ اس کا بیان یہ ہے کہ شیطان نے دونوں کو دھوکہ دیا اور دونوں اس سے دھوکا کھا گئے ۔ (6) شیطان اپنے قصور کا اعتراف کرنے کے بجائے نافرمانی پر اور زیادہ جم گیا ۔ جبکہ انسان نے اپنے قصور کا اعتراف کیا ، اس پر نادم ہوا اور معافی مانگی اور اسے معاف کردیا گیا ۔ (7) اس لیے جو انسانی راہ مطلوب و محمود ہے اسے شیطانی راہ سے بالکل الگ کرکے واضح کردیا ۔ اب یہ ہر انسان کی اپنی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے لیے انسانی راہ کو منتخب کرتا ہے یا شیطانی راہ اختیار کرتا ہے ۔ (تفہیم القرآن سے ماخوذ )
Top