Mutaliya-e-Quran - Nooh : 23
وَ قَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمْ وَ لَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لَا سُوَاعًا١ۙ۬ وَّ لَا یَغُوْثَ وَ یَعُوْقَ وَ نَسْرًاۚ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا لَا تَذَرُنَّ : نہ تم چھوڑو اٰلِهَتَكُمْ : اپنے ا لہوں کو وَلَا : اور نہ تَذَرُنَّ : تم چھوڑو وَدًّا : ود کو وَّلَا سُوَاعًا : اور نہ سواع کو وَّلَا يَغُوْثَ : اور نہ یغوث کو وَيَعُوْقَ : اور نہ یعوق کو وَنَسْرًا : اور نہ نسر کو
اِنہوں نے کہا ہرگز نہ چھوڑو اپنے معبودوں کو، اور نہ چھوڑو وَدّ اور سُواع کو، اور نہ یَغُوث اور یَعُوق اور نَسر کو
[وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمْ : اور انھوں نے کہا تم لوگ ہرگز مت چھوڑنا اپنے خدائوں کو ] [وَلَا تَذَرُنَّ : اور تم لوگ ہرگز مت چھوڑنا ] [وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا ڏ وَّلَا يَغُوْثَ : ودّ کو اور نہ سواع کو اور نہ یغوث کو ] [وَيَعُوْقَ وَنَسْرًا : اور (نہ ہی) یعوق اور نسر کو ] نوٹ۔ 2: آیت۔ 23 ۔ میں جن پانچ بتوں کا ذکر ہے ان کے متعلق امام بغوی نے نقل کیا ہے کہ یہ پانچوں دراصل اللہ کے نیک و صالح بندے تھے جو حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے درمیانی زمانے میں گزرے تھے۔ بہت سے لوگ ان کے معتقد اور پیروکار تھے اور عرصہ دراز تک لوگوں نے انھیں کے نقش قدم پر عبادت اور اللہ کے احکام کی اطاعت جاری رکھی۔ پھر شیطان نے ان کو سمجھایا کہ تم اپنے جن بزرگوں کی پیروی کرتے ہوئے عبادت کرتے ہو، اگر عبادت کے وقت ان کی تصویریں سامنے رکھ لیا کرو تو تمہاری عبادت بڑی مکمل ہوجائے گی اور تم کو خشوع و خضوع حاصل ہوگا۔ لوگ اس کے فریب میں آگئے اور بزرگوں کے مجسمے بنا کر عبادت گاہ میں رکھنے لگے۔ مجسموں کو دیکھ کر بزرگوں کی یاد تازہ ہوجانے سے ایک خاص کیفیت محسوس کرنے لگے، یہاں تک کہ اسی حال میں یہ لوگ یکے بعد دیگرے مرگئے۔ جب نئی نسل نے ان کی جگہ لی تو شیطان نے ان کو یہ پڑھایا کہ تمہارے بزرگوں کے خدا اور معبود یہی بت تھے اور وہ انہی کی عبادت کرتے تھے۔ یہاں سے بت پرستی شروع ہوگئی۔ (معارف القرآن)
Top