Mutaliya-e-Quran - Al-Insaan : 13
مُّتَّكِئِیْنَ فِیْهَا عَلَى الْاَرَآئِكِ١ۚ لَا یَرَوْنَ فِیْهَا شَمْسًا وَّ لَا زَمْهَرِیْرًاۚ
مُّتَّكِئِيْنَ : تکیہ لگائے ہوں گے فِيْهَا : اس میں عَلَي الْاَرَآئِكِ ۚ : تختوں پر لَا يَرَوْنَ : وہ نہ دیکھیں گے فِيْهَا : اس میں شَمْسًا : دھوپ وَّلَا : اور نہ زَمْهَرِيْرًا : سردی
وہاں وہ اونچی مسندوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہونگے نہ اُنہیں دھوپ کی گرمی ستائے گی نہ جاڑے کی ٹھر
[مُّتَّكِــــِٕيْنَ فِيْهَا : ٹیک لگا کر بیٹھنے والے ہوتے ہوئے اس میں ] [عَلَي الْاَرَاۗىِٕكِ : آراستہ تختوں پر ] [لَا يَرَوْنَ فِيْهَا : وہ لوگ نہیں دیکھیں گے اس میں ] [شَمْسًا وَّلَا زَمْهَرِيْرًا : کوئی سورج (دھوپ) اور نہ کوئی ٹھٹھرن ] نوٹ 1: آیت۔ 13 ۔ میں سورج اور زمہریر نہ دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ گرمی اور سردی دونوں کی اذیتوں سے محفوظ رہیں گے۔ ان کے سورج میں روشنی اور قوت بخشی تو ہوگی مگر اس میں حدت اور تمازت نہ ہوگی۔ وہاں کا موسم معتدل اور پربہار رہے گا۔ خزاں کی نحوست اور باد زمہریر (یخ ٹھنڈی ہوا) اسے ان کو کبھی سابقہ پیش نہیں آئے گا۔ (تدبر قرآن) اگلی آیت میں شاید درختوں کی شاخوں کو ظلال (سائے) سے تعبیر فرمایا ہے یا واقعی سایہ ہو۔ کیونکہ آفتاب کی دھوپ نہ سہی کوئی دوسری قسم کا نور ہوگا۔ اس کے سایہ میں بہشتی تفنن و تفریح کی غرض سے کبھی بیٹھنا چاہیں گے۔ (ترجمہ شیخ الہند (رح) )
Top