Mutaliya-e-Quran - Al-Insaan : 29
اِنَّ هٰذِهٖ تَذْكِرَةٌ١ۚ فَمَنْ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِیْلًا
اِنَّ هٰذِهٖ : بیشک یہ تَذْكِرَةٌ ۚ : نصیحت فَمَنْ : پس جو شَآءَ : چاہے اتَّخَذَ : اختیار کرکے اِلٰى : طرف رَبِّهٖ : اپنا رب سَبِيْلًا : راہ
یہ ایک نصیحت ہے، اب جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کر لے
[ان هٰذِهٖ تَذْكِرَةٌ: بیشک یہ ایک یادہانی ہے ] [فَمَنْ شَاۗءَ : تو جو چاہے ] [اتَّخَذَ اِلٰى رَبِهٖ : وہ بنا لے اپنے رب کی طرف ] [سَبِيْلًا : ایک راستہ ] نوٹ 3: آیات۔ 29 ۔ 30 ۔ میں تین باتیں ارشاد ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کرے۔ دوسرے یہ کہ تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللہ نہ چاہے۔ تیسرے یہ کہ اللہ بڑا حکیم وعلیم ہے۔ ان تینوں باتوں پر اگر اچھی طرح غور کیا جائے تو انسان کی آزادیٔ اختیار اور اللہ کی مشیت کا تعلق بخوبی سمجھ میں آجاتا ہے اور وہ تمام الجھنیں صاف ہوجاتی ہیں جو تقدیر کے مسئلہ میں بالعموم لوگوں کے ذہنوں میں پائی جاتی ہیں۔ پہلی بات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں انسان کو جو اختیارات دیے گئے ہیں وہ صرف اس حد تک ہیں کہ یہاں زندگی بسر کرنے کے لیے جو مختلف راستے اس کے سامنے آتے ہیں ان میں سے کسی کو اختیار کرنے کا فیصلہ کرے۔ یہ انتخاب کی آزادی (Free dom of Choice) ہے جو اللہ نے انسان کو دی ہے۔ مثلاً ایک آدمی کے سامنے اپنی روزی حاصل کرنے کا سوال جب آتا ہے تو اس کے سامنے بہت سے راستے ہوتے ہیں جن میں سے کچھ حلال ہیں اور کچھ حرام ہیں۔ ان میں کسی ایک راستے کو انتخاب کرنے کا فیصلہ انسان کے اپنے انتخاب پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ اپنا رزق کس طریقے سے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اسی طرح اخلاق کے مختلف ڈھنگ ہیں۔ اس کو پوری آزادی ہے کہ وہ اچھے برے جس ڈھنگ کے اخلاق اختیار کرنا چاہے کرلے۔ ایسا ہی معاملہ دین و مذہب کا ہے کہ اس میں بھی بہت سے راستے انسان کے سامنے کھلے ہوئے ہیں۔ الحاد اور انکار خدا، شرک وبت پرستی، شرک و توحید کے مختلف مخلوطے، ایک وہ خالص خدا پرستی جس کی تعلیم قرآن دیتا ہے۔ یہ فیصلہ بھی انسان پر ہی چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ ان میں سے کس کو اختیار کرنا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر جبراً اپنا کوئی فیصلہ نہیں ٹھونستا کہ وہ چاہتا تو ہو حلال روزی اور اللہ زبردستی اس کو حرام خور بنائے، یا وہ چاہتا تو ہو قرآن کی پیروی اور اللہ جبراً اسے ملحد یا مشرک یا کافر بنا دے۔ لیکن اس آزادیٔ انتخاب کے بعد یہ بات کہ انسان عملاً بھی وہی کچھ کرسکے جو وہ کرنا چاہتا ہے، اللہ کی مشیت اور اس کے اذن اور اس کی توفیق پر منحصر ہے۔ اگر اللہ کی مشیت یہ ہو کہ انسان کو وہ کام کرنے دے جس کے کرنے کی خواہش یا ارادہ یا فیصلہ اس نے کیا ہے، تب ہی وہ اس کو کرسکتا ہے ورنہ وہ چاہے کتنی بھی کوشش کرلے اللہ کے اذن کے بغیر کچھ نہیں کرسکتا۔ یہی بات دوسری بات میں فرمائی گئی ہے۔ اس معاملہ کو یوں سمجھئے کہ اگر دنیا میں انسان کو سارے اختیارات دے دئیے گئے ہوتے اور یہ بات اس کی مرضی پر چھوڑی گئی ہوتی کہ وہ جو کچھ بھی کرنا چاہے کر گزرے تو نظام عالم درہم برہم ہوجاتا۔ ایک قاتل دنیا کے تمام انسانوں کو قتل کردینے کے لیے کافی تھا ایک جیب کترا دنیا کے کسی آدمی کی جیب سلامت نہ چھوڑتا، ایک ڈاکو سے کسی کا گھر نہ بچ سکتا اگر ان میں سے ہر ایک کو من مانی کرنے کے پورے اختیارات حاصل ہوتے۔ اس لیے یہ بات اللہ نے اپنے ہی اختیار میں رکھی ہے کہ انسان صحیح یا غلط جس راستے پر بھی جانا چاہے اس پر اسے چلنے دے ۔ اس کے بعد تیسری بات اس غلط فہمی کو رفع کرتی ہے کہ اللہ کی یہ مشیت اَلَل ٹپ (Arbitrary) نہیں ہے۔ وہ دانا ہے اور سب کچھ جانتا ہے وہ جو کچھ بھی کرتا ہے علم اور دانائی کے ساتھ کرتا ہے۔ وہ اپنے پورے علم اور پوری حکمت کے ساتھ یہ طے کرتا ہے کہ کس کو کیا توفیق دینی چاہیے اور کیا نہ دینی چاہیے۔ جس حدتک وہ انسان کو موقع دیتا ہے اور اسباب کو اس کے لیے سازگار بناتا ہے اسی حد تک وہ اپنی خواہش کے مطابق کام کرسکتا ہے خواہ وہ اچھا کام ہو یا برا کام ہو۔ ہدایت کا معاملہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے علم کی بنا پر جانتا ہے اور وہی اپنی حکمت کی بنا پر طے کرتا ہے کہ کون ہدایت کا مستحق ہے اور کون نہیں ہے۔ (تفہیم القرآن۔ ج 6، ص 576 ۔ 577)
Top