بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mutaliya-e-Quran - An-Naba : 1
عَمَّ یَتَسَآءَلُوْنَۚ
عَمَّ : کس چیز کے بارے میں يَتَسَآءَلُوْنَ : وہ ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہیں
یہ لوگ کس چیز کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں؟
[عَمَّ : کس چیز کے بارے میں ][ يَتَسَاۗءَلُوْنَ : یہ لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں ] نوٹ 1: عَمَّ دراصل دو حرفوں عن اور ما سے مرکب ہے۔ حرف مَا استفہام کے لیے آتا ہے۔ اس ترکیب میں حرف مَا سے الف ساقط کردیا جاتا ہے۔ معنی ہوئے کس چیز کے بارے میں۔ (معارف القرآن) نوٹ 2: مکہ معظمہ میں جب اوّل اوّل رسول اللہ ﷺ نے اسلام کی تبلیغ کا آغاز کیا تو اس کی بنیاد تین چیزیں تھیں۔ ایک یہ بات کہ اللہ کے ساتھ کسی کو خدائی میں شریک نہ مانا جائے۔ دوسری یہ کہ آپ 1 کو اللہ نے اپنا رسول مقرر کیا ہے۔ تیسری یہ کہ اس دنیا کا ایک روز خاتمہ ہوجائے گا اور اس کے بعد ایک دوسرا عالم برپا ہوگا جس میں تمام اولین و آخرین دوبارہ زندہ کر کے اسی جسم کے ساتھ اٹھائے جائیں گے جس میں رہ کر انہوں نے اس دنیا میں کام کیا تھا۔ پھر ان کے عقائد اور اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ اس محاسبہ میں جو لوگ مومن اور صالح ثابت ہوں گے وہ ہمیشہ کے لیے جنت میں جائیں گے اور جو کافر وفاسق ہوں گے وہ دوزخ میں جائیں گے۔ ان میں سے پہلی بات اگرچہ اہل مکہ کو سخت ناگوار تھی، لیکن بہرحال وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے منکر نہ تھے، اس کے رب اعلیٰ اور خالق و رازق ہونے کو بھی مانتے تھے اور یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ دوسری جن جن ہستیوں کو وہ معبود قرار دیتے ہیں وہ اللہ ہی کی مخلوق ہیں۔ اس لیے جھگڑا صرف اس بات میں تھا کہ خدا کی خدائی میں ان ہستیوں کی کوئی شرکت ہے یا نہیں۔ دوسری بات کو مکہ کے لوگ ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ لیکن اس امر سے انکار کرنا ان کے لیے ممکن نہ تھا کہ چالیس سال تک جو زندگی آپ 1 نے ان کے درمیان گزاری تھی اس میں انہوں نے کبھی آپ 1 کو جھوٹا یا فریب کار یا مطلبی نہ پایا تھا۔ اس لیے ہزار بہانے اور الزامات تراشنے کے باوجود انھیں دوسروں کو باور کرانے اور خود باور کرنے میں سخت مشکل پیش آرہی تھی کہ حضور 1 سارے معاملات میں تو راستباز ہیں اور صرف رسالت کے دعوے میں معاذ اللہ جھوٹے ہیں۔ اس طرح پہلی دو باتیں اہل مکہ کے لیے اتنی زیادہ الجھن کا باعث نہ تھیں جتنی تیسری بات تھی۔ انھوں نے سب سے زیادہ اسی کا مذاق اڑایا، سب سے زیادہ حیرانی اور تعجب کا اظہار کیا اور اسے بالکل بعید از عقل اور ناممکن سمجھ کر جگہ جگہ اس کے ناقابل تصور ہونے کے چرچے شروع کر دئیے۔ مگر ان لوگوں کو اسلام کی راہ پر لانے کے لے یہ قطعی ناگزیر تھا کہ آخرت کا عقیدہ ان کے ذہن میں اتاراجائے کیونکہ اس عقیدے کو مانے بغیر یہ ممکن ہی نہ تھا کہ حق اور باطل کے معاملہ میں ان کا طرز فکر سنجیدہ ہوسکتا، خیر و شر کے معاملہ میں ان کا معیار بدل سکتا اور دنیا پرستی کی راہ چھوڑ کر اس راہ پر ایک قدم بھی چل سکتے جس پر اسلام ان کو چلانا چاہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مکہ معظمہ کے ابتدائی دور کی سورتوں میں زیادہ تر زور آخرت کا عقیدہ دلوں میں بٹھانے پر صرف کیا گیا ہے۔ البتہ اس کے لیے دلائل ایسے انداز سے دئیے گئے ہیں جن سے توحید کا تصور بھی خودبخود ذہن نشین ہوتا چلا جاتا ہے اور بیچ بیچ میں رسول اللہ ﷺ اور قرآن کے برحق ہونے کے دلائل بھی مختصراً دے دیے گئے ہیں۔ اس لیے اس دور کی سورتوں میں (سورۂ قیامہ سے نازعات تک) آخرت کے مضمون کی تکرار زیادہ ہے۔ (تفہیم القرآن۔ ج 6 ۔ ص 220 ۔ 221)
Top