Mutaliya-e-Quran - Al-Anfaal : 53
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ لَمْ یَكُ مُغَیِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰى قَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ١ۙ وَ اَنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّ : اس لیے کہ اللّٰهَ : اللہ لَمْ يَكُ : نہیں ہے مُغَيِّرًا : بدلنے والا نِّعْمَةً : کوئی نعمت اَنْعَمَهَا : اسے دی عَلٰي قَوْمٍ : کسی قوم کو حَتّٰي : جب تک يُغَيِّرُوْا : وہ بدلیں مَا : جو بِاَنْفُسِهِمْ : ان کے دلوں میں وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
یہ اللہ کی اِس سنت کے مطابق ہوا کہ وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرزِ عمل کو نہیں بدل دیتی اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے
ذٰلِكَ [ یہ ] بِاَنَّ [ اس سبب سے ہے کہ ] اللّٰهَ [ اللہ ] لَمْ يَكُ [ ہرگز نہیں ہے ] مُغَيِّرًا [ بدلنے والا ] نِّعْمَةً [ کسی ایسی نعمت کو ] اَنْعَمَهَا [ اس نے انعام کیا جسے ] عَلٰي قَوْمٍ [ کسی قوم پر ] حَتّٰي [ یہاں تک کہ ] يُغَيِّرُوْا [ وہ لوگ بدلیں ] مَا [ اس کو جو ] بِاَنْفُسِهِمْ ۙ [ ان کے جیبوں میں ہے ] وَاَنَّ [ اور یہ کہ ] اللّٰهَ [ اللہ ] سَمِيْعٌ [ سننے والا ہے ] عَلِيْمٌ [ جاننے والا ہے ] (آیت ۔ 53) بان کا اسم اللہ ہے ۔ اور لم یک مغیرا پورا جملہ اس کی خبر ہے ۔ اس جملہ میں لم یک دراصل لم یکن ہے۔ اس کا دونوں طرح استعمال جائز ہے۔ اور قرآن مجید میں بھی یہ دونوں طرح آیا ہے ۔ اس جملہ میں لم یک کا اسم ھو کی ضمیر ہے جو اللہ کے لیے ہے جبکہ مغیرا اسم الفاعل ہے۔ اس نے فعل کا عمل کیا ہے ۔ اور نعمۃ اس کا مفعول ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔ یغیروا کا فاعل اس میں ھم کی ضمیر ہے جو قوم کے لیے ہے ۔ نوٹ ۔ 1: اللہ تعالیٰ کی نعمت ورحمت تو اس کے رب العالمین ہونے کے نتیجہ میں خود بخود ہے ۔ البتہ اس نعمت کو قائم رکھنے کا ایک ضابطہ آیت نمبر 53 میں بیان کیا گیا ہے کہ جس قوم کو اللہ تعالیٰ کوئی نعمت دیتے ہیں ، اسے اس وقت تک واپس نہیں لیتے جب تک وہ اپنے حالات اور اعمال کو بدل کر خود ہی اللہ کے عذاب کو دعوت نہ دے ۔ قریش کے متعلق تفسیر مظہری میں معتمد کتب تاریخ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ کلاب بن مرہ ، رسول اللہ ﷺ کے نسب میں تیسرے دادا ہیں، دین ابراہیم واسماعیل کے پابند اور اس پر قائم تھے، قصی بن کلاب کے زمانہ میں قریش میں بت پرستی کا آغاز ہوا ۔ ان سے پہلے کعب بن لوی ان کے دینی قائد تھے، وہ جمعہ کے روز سب کو جمع کرکے خطبہ دیا کرتے اور بتلایا کرتے تھے کہ ان کی اولاد میں خاتم الانبیاء ( ﷺ ) پیدا ہوں گے ۔ ان کا اتباع سب پر لازم ہوگا ۔ جو ان پر ایمان نہ لائے گا اس کا کوئی عمل قبول نہ ہوگا ۔ آنحضرت ﷺ کے بارے میں ان کے عربی اشعار شعراء جاہلیت میں مشہور و معروف ہیں ۔ (معارف القرآن سے ماخوذ) قریش نے بت پرستی اختیار کرکے اور رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کرکے اپنی موت و ہلاکت کو دعوت دی ۔
Top