Mutaliya-e-Quran - Al-Ghaashiya : 17
اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَیْفَ خُلِقَتْٙ
اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ : کیا وہ نہیں دیکھتے اِلَى الْاِبِلِ : اونٹ کی طرف كَيْفَ : کیسے خُلِقَتْ : پیدا کئے گئے
(یہ لوگ نہیں مانتے) تو کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے؟
[اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ : تو کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں اونٹوں کی طرف ][ كَيْفَ خُلِقَتْ : (کہ) کیسا اس کو بنایا گیا ] ترکیب : (آیات۔ 17 ۔ تا 20 ۔ ) میں تمام افعال واحد مونث آئے ہیں۔ اس کی وجہ سمجھ لیں۔ اَلْاِبِلِ اسم جنس ہے جس میں تمام اونٹ اور اونٹنیاں شامل ہیں۔ اس طرح یہ اسم جمع کے حکم میں ہے جس کے لیے فعل واحد مذکر یا واحد مونث، دونوں میں سے کسی طرح لانا جائز ہوتا ہے۔ (دیکھیں آسان عربی گرمر، حصہ دوم، پیراگراف۔ 4:31) اَلسَّمَائِ اور اَلْاَرْضِ ، دونوں مؤنث سماعی ہیں، جبکہ اَلْجِبَالِ غیر عاقل کی جمع مکسر ہے اَلسَّمَائِ اور اَلْجِبَالِ پر لام جنس ہے جبکہ اَلْاَرْضِ پر لام تعریف ہے۔ نوٹ۔ 1: آیات۔ 17 تا 20 کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ آخرت کی باتیں سن کر کہتے ہیں کہ آخر یہ سب کچھ کیسے ہوسکتا ہے تو کیا اپنے گرد و پیش کی دنیا پر نظر ڈال کر انھوں نے کبھی نہ سوچا کہ یہ اونٹ کیسے بن گئے۔ آسمان کیسے بلند ہوگیا۔ پہاڑ کیسے قائم ہوگئے، زمین کیسے بچھ گئی۔ یہ ساری چیزیں اگر بن سکتی ہیں اور بنی بنائی ان کے سامنے موجود ہیں تو آخرت میں ایک دوسری دنیا کیوں نہیں بن سکتی۔ جنت اور دوزخ کیوں نہیں ہوسکتیں۔ (تفہیم القرآن) نوٹ۔ 1: آیات۔ 17 تا 20 کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ آخرت کی باتیں سن کر کہتے ہیں کہ آخر یہ سب کچھ کیسے ہوسکتا ہے تو کیا اپنے گرد و پیش کی دنیا پر نظر ڈال کر انھوں نے کبھی نہ سوچا کہ یہ اونٹ کیسے بن گئے۔ آسمان کیسے بلند ہوگیا۔ پہاڑ کیسے قائم ہوگئے، زمین کیسے بچھ گئی۔ یہ ساری چیزیں اگر بن سکتی ہیں اور بنی بنائی ان کے سامنے موجود ہیں تو آخرت میں ایک دوسری دنیا کیوں نہیں بن سکتی۔ جنت اور دوزخ کیوں نہیں ہوسکتیں۔ (تفہیم القرآن) کائنات کی بیشمار چیزوں میں سے ان چار چیزوں کی تخصیص بقول ابن کثیر (رح) اس لیے ہے کہ عرب کے لوگ اکثر جنگلوں میں چلتے پھرتے تھے۔ اس وقت ان کے سامنے یہی چار چیزیں ہوتی تھیں۔ سواری میں اونٹ، اوپر آسمان، نیچے زمین اور اردگرد پہاڑ۔ اس لیے ان ہی علامات میں غور کرنے کے لیے ارشاد ہوا۔ (ترجمہ شیخ الہند (رح) ) ان میں سے دو نشانیاں، اونٹ اور زمین، ربوبیت کے پہلو سے اور دو نشانیاں، آسمان اور پہاڑ، خالق کی قدرت و حکمت کے پہلو سے زیادہ نمایاں ہیں۔ خالق کی انہی صفات پر قیامت اور جزاء وسزا کے پورے پہلو کی بنیاد ہے۔ (تدبر قرآن) نوٹ۔ 2: جانوروں میں اونٹ کی کچھ ایسی خصوسیات بھی ہیں جو غور کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ کی حکمت و قدرت کا آئینہ بن سکتی ہیں۔ اول تو عرب میں ڈیل ڈول کے اعتبار سے سب سے بڑا جانور اونٹ ہی ہے، ہاتھی وہاں ہوتا نہیں۔ دوسرے اللہ تعالیٰ نے اس عظیم جانور کو ایسا بنادیا کہ عرب کے بدو اور مفلس آدمی بھی اتنے بڑے جانور کو پالنے اور رکھنے میں کوئی مشکل محسوس نہ کریں، کیونکہ اس کو چھوڑ دیں تو یہ اپنا پیٹ خود بھر لیتا ہے۔ اونچے درختوں کے پتے توڑنے کی زحمت بھی آپ کو نہیں کرنا پڑتی یہ خود درختوں کی شاخیں کھا کر گزارہ کرلیتا ہے۔ اس کی خوراک ہاتھی اور دوسرے جانوروں کی طرح نہیں جو بہت مہنگی پڑتی ہے۔ عرب میں پانی ایک بہت کمیاب چیز ہے، ہر جگہ ہر وقت نہیں ملتا۔ قدرت نے اس کے پیٹ میں ایک ریزروٹن کی ایسی لگا دی ہے کہ سات آٹھ روز کا پانی وہ اس ٹنکی میں محفوظ کرلیتا ہے اور تدریجی رفتار سے وہ اپنی پانی کی ضرورت کو پورا کرتا رہتا ہے۔ اتنے اونچے جانور پر سوارہونے کے لیے سیڑھی لگانی پڑتی مگر قدرت نے اس کے پائوں کو تین تہہ میں تقسیم کردیا یعنی ہر پائوں میں دو گھٹنے بنا دئیے، جسے وہ طے کر کے بیٹھ جاتا ہے تو اس پر چڑھنا اور اترنا آسان ہوجاتا ہے۔ محنت کش اتنا کہ سب جانوروں سے زیادہ بوجھ اٹھا لیتا ہے۔ عرب کے میدانوں میں دھوپ کی وجہ سے دن کا سفر سخت مشکل ہے۔ قدرت نے اس کو رات بھر چلنے کا عادی بنادیا۔ مسکین طبع ایسا ہے کہ ایک بچی اس کی مہار پکڑ کر جہاں چاہے لے جائے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی خصوصیات میں جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت بالغہ کا سبق دیتی ہیں۔ (معارف القرآن) یہ واحد جانور ہے کہ اس کو بیٹھا کر اس کی پیٹھ پر بوجھ لادیں، پھر اس کو کھڑا کریں تو یہ بوجھ سمیت اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ کسی دوسرے جانور میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ پیٹھ پر بوجھ لاد کر بیٹھے سے اٹھ کھڑا ہو۔ کہتے ہیں کہ کسی شخص نے اپنے ایک دانا بزرگ کو بتایا کہ میں نے ایک ایسا جانور دیکھا ہے جو بوجھ لاد کر اٹھ کھڑا ہوجاتا ہے۔ تو بزرگ نے فرمایا کہ اگر ایسا ہے تو اس کی گردن ضرور لمبی ہوگی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید اونٹ کی گردن بوجھ اٹھانے کے لیے لیور کا کام دیتی ہے۔ (حافظ احمد یار صاحب)
Top