Mutaliya-e-Quran - At-Tawba : 12
وَ اِنْ نَّكَثُوْۤا اَیْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَ طَعَنُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ فَقَاتِلُوْۤا اَئِمَّةَ الْكُفْرِ١ۙ اِنَّهُمْ لَاۤ اَیْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ یَنْتَهُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر نَّكَثُوْٓا : وہ توڑ دیں اَيْمَانَهُمْ : اپنی قسمیں مِّنْۢ بَعْدِ : کے بعد سے عَهْدِهِمْ : اپنا عہد وَطَعَنُوْا : اور عیب نکالیں فِيْ : میں دِيْنِكُمْ : تمہارا دین فَقَاتِلُوْٓا : تو جنگ کرو اَئِمَّةَ الْكُفْرِ : کفر کے سردار اِنَّهُمْ : بیشک وہ لَآ : نہیں اَيْمَانَ : قسم لَهُمْ : ان کی لَعَلَّهُمْ : شاید وہ يَنْتَهُوْنَ : باز آجائیں
اور اگر عہد کرنے کے بعد یہ پھر اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین پر حملے کرنے شروع کر دیں تو کفر کے علمبرداروں سے جنگ کرو کیونکہ ان کی قسموں کا اعتبار نہیں شاید کہ (پھر تلوار ہی کے زور سے) وہ باز آئیں گے
وَاِنْ [ اور اگر ] نَّكَثُوْٓا [ وہ توڑ دیں ] اَيْمَانَهُمْ [ اپنی قسموں کو ] مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ اپنے عہد کے بعد سے ] وَطَعَنُوْا [ اور طعنہ دیں ] فِيْ دِيْنِكُمْ [ تمہارے دین میں ] فَقَاتِلُوْٓا [ تو تم لوگ جنگ کرو ] اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ ۙ [ کفر کے سرداروں سے ] اِنَّهُمْ [ بیشک وہ لوگ (ایسے ) ہیں ] لَآ اَيْمَانَ [ کہ کسی طرح کی کوئی بھی قسم نہیں ہے ] لَهُمْ [ ان کے لیے ] لَعَلَّهُمْ [ شاید وہ لوگ ] يَنْتَهُوْنَ [ باز آجائیں ] نوٹ۔ 1: جنگ (War) کے لیے قرآن مجید کی اصطلاح ” قتال “ ہے اور آیات ۔ 12، 13، 14، میں اسی لفظ کے مختلف صیغے استعمال ہوئے ہیں ۔ کیونکہ وہاں جنگ کا حکم دینا مقصود تھا ۔ لیکن آیت ۔ 16 میں یہ بتانا مقصود ہے کہ قیامت میں جھنہم سے نجات اور جنت میں داخلہ کے لیے صرف ایمان کا زبانی اقرار کافی نہیں ہے، بلکہ اس کی کچھ اور بھی شرائط ہیں ۔ اس آیت میں پہلی شرط کی نشاندہی کرنے کے لیے لفظ قتال کے بجائے لفظ جہاد کا فعل ماضی لایا گیا ہے ۔ اس فرق کو سمجھنے کے لیے لفظ جہاد کو پورا مفہوم واضح ہونا ضروری ہے ۔ جہاد کا مطلب ہے کسی مقصد کے لیے جدوجہد کرنا ۔ جبکہ قرآن کی ایک اصطلاح کے طور پر اس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے جدوجہد کرنا اور قرآن میں یہ لفظ عموما اسی مفہوم میں آیا ہے ۔ خواہ فی سبیل اللہ کے الفاظ لفظ مذکور ہوں یا نہ ہوں ۔ اس کے تین مرحلے ہیں ۔ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کے ساتھ جدوجہد کرکے اسے اللہ کے احکام کی پابندی کا عادی بنائے ، اسے جہاد مع النفس کہتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے اسے افضل جہاد قرار دیا ہے ۔ یہ فرض عین ہے اور جنت میں داخلہ کی شرط کے طور پر یہی مرحلہ مراد ہے ۔ اپنے آپ کو اللہ کی اطاعت کا عادی بنا لینے کے بعد انسان کو مطمئن نہیں ہوجانا چاہیے بلکہ اب دوسروں کو جہنم سے بچانے کے لیے اسلام کی دعوت و تبلیغ کی جہدوجہد میں حصہ لینا چاہیے، اس میں اپنا وات ، اپنی صلاحیت اور اپنا پیسہ صرف کرنا چاہیے ۔ یہ جہاد فی سبیل اللہ کا دوسرا مرحلہ ہے اور یہ فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے ۔ (دیکھیں آیت نمبر ۔ 4: 95، نوٹ ۔ 2) پھر اگر ضرورت پڑے تو اسلام کی سربلندی کے لیے جنگ میں حصہ لینا چاہیے ۔ یہ جہاد فی سبیل اللہ کا تیسرا مرحلہ ہے اور اسے قتال فی سبیل اللہ کہتے ہیں ۔ یہ بھی فرض کفایہ ہے ، الا یہ کہ اسلامی حکومت کے امیر کی طرف سے ( General Mobilisation) کا حکم ہو ۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تمام غزوات میں شرکت فرض کفایہ تھی سوائے غزوہ تبوک کے جس میں شرکت فرض عین ہوگئی تھی ، یہی وجہ ہے کہ اس میں شرکت نہ کرنے والوں سے باز پرس ہوئی تھی ۔
Top