Mutaliya-e-Quran - At-Tawba : 121
وَ لَا یُنْفِقُوْنَ نَفَقَةً صَغِیْرَةً وَّ لَا كَبِیْرَةً وَّ لَا یَقْطَعُوْنَ وَادِیًا اِلَّا كُتِبَ لَهُمْ لِیَجْزِیَهُمُ اللّٰهُ اَحْسَنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
وَلَا يُنْفِقُوْنَ : اور نہ وہ خرچ کرتے ہیں نَفَقَةً : خرچ صَغِيْرَةً : چھوٹا وَّلَا كَبِيْرَةً : اور نہ بڑا وَّلَا يَقْطَعُوْنَ : اور نہ طے کرتے ہیں وَادِيًا : کوئی وادی (میدان) اِلَّا : مگر كُتِبَ لَھُمْ : تاکہ جزا دے انہیں لِيَجْزِيَھُمُ : تاکہ جزا دے انہیں اللّٰهُ : اللہ اَحْسَنَ : بہترین مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے (ان کے اعمال)
اسی طرح یہ بھی کبھی نہ ہوگا کہ (راہ خدا میں) تھوڑا یا بہت کوئی خرچ وہ اٹھائیں اور (سعی جہاد میں) کوئی وادی وہ پار کریں اور ان کے حق میں اسے لکھ نہ لیا جائے تاکہ اللہ ان کے اس اچھے کارنامے کا صلہ انہیں عطا کرے
وَلَا يُنْفِقُوْنَ [ اور وہ خرچ نہیں کرتے ] نَفَقَةً صَغِيْرَةً [ کوئی چھوٹا خرچہ ] وَّلَا كَبِيْرَةً [ اور نہ ہی کوئی بڑا (خرچہ )] وَّلَا يَـقْطَعُوْنَ [ اور وہ نہیں کاٹتے (یعنی طے کرتے ) ] وَادِيًا [ کسی وادی کو ] اِلَّا [ مگر ( یہ کہ ) ] كُتِبَ [ لکھا گیا ] لَھُمْ [ ان کے لیے ] لِيَجْزِيَھُمُ [ تاکہ جزادے ان کو ] اللّٰهُ [ اللہ ] اَحْسَنَ [ اس کی بہترین جو ] مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ [ وہ عمل کرتے تھے ] نوٹ ۔ 1: گذشتہ آیات میں مسلسل غزوہ تبوک کا ذکر چلا آ رہا ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے نفیر عام کا اعلان کیا تھا کہ ہر شخص اس میں شریک ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں شرکت نہ کرنے والوں سے باز پرس ہوئی ۔ منافقوں کے جھوٹے عذر قبول کیے گئے اور مومنوں کی توبہ قبول کی گئی ، ان سب واقعات سے تاثر یہ ملتا ہے کہ ہر قتال فی سبیل اللہ کی مہم میں شریک ہونا ہر مسلمان پر فرض عین ہے اور شرکت نہ کرنا حرام ہے ۔ حالانکہ شرعی حکم یہ نہیں ہے۔ بلکہ عام حالات میں قتال میں شرکت فرض کفایہ ہے الا یہ کہ مسلمانوں کا امر نفیر عام کا حکم دے ۔ اسی بات کی وضاحت کے لیے آیت نمبر 122 میں ارشاد ہوا کہ مسلمانوں کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ کسی مہم پر سب کے سب نکل کھڑے ہوں ۔ اس حوالہ سے فرض کفایہ کی حقیقت سمجھ لیں ، جو فرائض شخصی نہیں بلکہ اجتماعی ہیں، انھیں شریعت نے فرض کفایہ قرار دیا ہے تاکہ تقسیم کار کے اصول پر مختلف جماعتیں فرائض ادا کرتی رہیں ، اور تمام اجتماعی فرائض ادا ہوتے رہیں ۔ مثلا نماز جنازہ اور اس کی تکفین ، مساجد کی تعمیر و نگرانی ، سرحدوں کی حفاظت قتال یعنی جنگ وغیرہ ، یہ سب فرض دینی تعلیم بھی ہے اور مذکورہ آیت میں اس کے فرض ہونے کا ذکر اس طرح فرمایا ہے کہ قتال جیسے اہم فرض میں بھی اس اہم فرض کو چھوڑنا نہیں چاہیے بلکہ جتنے افراد کی ضرورت ہے ، وہ لوگ قتال فی سبیل اللہ کے لیے نکلیں اور باقی لوگ علم دین سیکھنے اور سکھانے کا فریضہ سرانجام دیتے رہیں ۔ (معارف القرآن سے ماخوذ)
Top