Al-Qurtubi - Yunus : 11
وَ لَوْ یُعَجِّلُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَیْرِ لَقُضِیَ اِلَیْهِمْ اَجَلُهُمْ١ؕ فَنَذَرُ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر يُعَجِّلُ : جلد بھیجدیتا اللّٰهُ : اللہ لِلنَّاسِ : لوگوں کو الشَّرَّ : برائی اسْتِعْجَالَھُمْ : جلد چاہتے ہیں بِالْخَيْرِ : بھلائی لَقُضِيَ : تو پھر ہوچکی ہوتی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف اَجَلُھُمْ : ان کی عمر کی میعاد فَنَذَرُ : پس ہم چھوڑ دیتے ہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : وہ امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہماری ملاقات فِيْ : میں طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : وہ بہکتے ہیں
اور اگر خدا لوگوں کی برائی میں جلدی کرتا جس طرح وہ طلب خیر میں جلدی کرتے ہیں تو ان کی (عمر کی) میعاد پوری ہوچکی ہوتی۔ سو جن لوگوں کو ہم سے ملنے کو توقع نہیں انہیں ہم چھوڑے رکھتے ہیں کہ اپنی سرکشی میں بہکتے رہیں۔
آیت نمبر : 11 اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ قولہ تعالیٰ : آیت : ولو یعجل اللہ للناس الشر کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو سزا دینے میں جلدی کرتا جیسے وہ ثواب اور بھلائی کے لیے جلد بازی کرتے ہیں تو وہ یقینا مر چکے ہوتے، کیونکہ وہ دنیا میں ضعیف اور کمزور مخلوق کی صورت میں پیدا کیے گئے ہیں اور قیامت کے دن وہ اس طرح نہ ہوں گے، کیونکہ قیامت کے دن انہیں باقی رہنے کے لیے تخلیق کیا جائے گا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کے ساتھ مکروہ اور تکلیف دہ دعا کو قبول کرنے میں اسی طرح کرتا جیسے وہ چاہتے ہیں کہ خیر اور بھلائی کی دعا قبول کرنے میں وہ ان کے ساتھ کرے تو یقینا وہ انہیں ہلاک کرچکا ہوتا۔ اور آیت : لقضی الیھم اجلھم کا معنی یہی ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک یہ کافر کے ساتھ خاص ہے، یعنی اگر اللہ تعالیٰ کافر کو اس کے کفر پر عذاب دینے میں جلدی کرتا جیسا کہ اس نے اس کو مال اور اولاد میں سے دنیا کی بھلائی عطا کرنے میں جلدی کی ہے تو یقینا وہ اس کے لیے اس کی میعاد پوری کرنے میں جلدی کرتا تاکہ وہ آخرت کے عذاب کو جلدی پائے۔ یہ ابن اسحاق نے کہا ہے (تفسیر ماوردی، سوری یونس، جلد 2، صفحہ 425 ) ۔ مقاتل نے کہا ہے : وہ نضر بن حارث کا یہ قول ہے : اے اللہ ! اگر یہی تیری طرف سے سچ ہو تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، پس اگر اللہ تعالیٰ ان کے لیے اس کی جلدی کرتا تو یقینا وہ ہلاک ہوجاتے۔ اور حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : یہ آیت ایسے آدمی کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو اپنی ذات یا اپنے مال یا اپنی اولاد کو بدعا دیتا ہے جب وہ غصے میں ہوتا ہے : اے اللہ اسے ہلاک کر دے، اے اللہ ! اس کے لیے اس میں برکت نہ دے اور اس پر لعنت بھیج یا اسی طرح کی اور بددعائیں (2۔ تفسیر طبری، سورة یونس، جلد 11، صفحۃ 108) ۔ پس اگر اسے اس کی طرف سے قبول کرلیا جائے جیسے خیر اور بھلائی کی دعا کو قبول کیا جاتا ہے تو ان کی میعاد پوری کردی گئی ہوتی۔ پس یہ آیت اخلاق ذمیمہ کی مذمت کرنے کے لیے نازل ہوئی۔ یہ ان بعض لوگوں کے بارے میں ہے جو خیر اور بھلائی کی دعا کرتے ہیں اور اس کی جلدی قبولیت کی خواہش رکھتے ہیں پھر کبھی کبھار بداخلاقی انہیں شر کے بارے دعا پر ابھارتی ہے۔ پس اگر وہ ان کے لیے (اس کے بارے) جلدی کرتا تو وہ یقینا ہلاک ہوجاتے۔ مسئلہ نمبر 2۔ اس دعا کی قبولیت میں اختلاف کیا گیا ہے۔ پس حضور نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : ” بیشک میں نے اللہ تعالیٰ عزوجل سے التجا کی ہے کہ وہ کسی دوست کی دعا اپنے دوست کے خلاف قبول نہ کرے “۔ اور شہر بن حوشب نے کہا ہے : میں نے بعض کتب میں پڑھا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان ملائکہ کو فرماتا ہے جو بندوں پر مقرر کیے گئے ہیں : تم میرے بندے کے خلاف اس حال میں کچھ نہ لکھو جو اسے غمزدہ کر کے کسی شی پر مجبور کر دے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس پر لطف و عنایت ہے۔ بعض نے کہا ہے : کبھی ایسی دعا قبول کرلی جاتی ہے۔ اور انہوں نے حضرت جابررضی ؓ نے بیان کیا : ہم رسول اللہ ﷺ کی معیت میں غزوہ بطن بواط (بواط جہینہ کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے) میں چلے اور آپ مجدی بن عمرو جہنی کو تلاش کر رہے تھے اور ہم میں سے پانچ، چھ یا ساتھ آدمیوں کے پاس ایک اونٹ تھا اور ہم باری باری اس پر سوار ہوتے تھے، پس انصار، میں سے ایک آدمی کی باری اونٹ پر سوار ہونے کی آئی پس اس نے اسے بٹھایا اور اس پر سوار ہوگیا، پھر اس نے اسے اٹھایا اس نے توقف کیا اور نہ اٹھا۔ پس اس نے اسے کہا : شاء (یعنی اونٹ کو جھڑکا) اللہ تعالیٰ تجھ پر لعنت کرے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اپنے اونٹ کو لعنت کرنے والا کون ہے “ ؟ اس نے کہا : میں ہوں یا رسول اللہ ﷺ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” تو اس سے نیچے اتر آ اور تو ملعون کے ساتھ ہمارے ساتھ نہ چل۔ تم نہ بددعا دو اپنی ذاتوں کو اور نہ بددعا دو اپنی اولاد کو اور نہ بددعا کرو اپنے مالوں کے لیے تم اللہ تعالیٰ سے ایسی ساعت میں موافقت نہ کرو کہ جس میں اس سے عطا کا سوال کیا جاتا ہے اور تمہارے لیے وہ اسے قبول فرما لیتا ہے “ (3۔ صحیح مسلم، کتاب الزہد، جلد 2، صفہ 416) ۔ کتاب مسلم کے علاوہ کسی اور میں ہے کہ حضسور نبی مکرم ﷺ ایک سفر میں تھے تو ایک آدمی نے اپنی اونٹنی کو لعنت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا :” کہاں ہے وہ جس نے اپنی ناقہ پر لعنت کی ہے ؟ “۔ تو اس آدمی نے کہا : میں یہ ہوں یا رسول اللہ ! ﷺ ، تو آپ ﷺ نے فرمایا :” تو اسے اپنے پیچھے چھوڑ دے تحقیق اس کے حق میں تیری بددعا قبول ہوچکی ہے “۔ اسے حلیمی نے منہاج الدین میں ذکر کیا ہے، شا، یہ لفظ سین اور شین دونوں کے ساتھ روایت کیا جاتا ہے اور اس کا معنی اونٹ کو جھڑکنا ہے اور یہ بمعنی سر (تو چل) ہے۔ مسئلہ نمبر 3۔ قولہ تعالیٰ : آیت : ولو یعجل اللہ علماء نے بیان کیا ہے کہ تعجیل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور استعجال (عجلت کا مطالبہ) بندے کی جانب سے ہوتا ہے۔ اور ابو علی نے کہا ہے : یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں۔ اور کلام میں حذف ہے ای ولو یعجل اللہ للناس الشر تعجیلا مثل استعجالھم بالخیر (اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو شر پہچانے میں اتنی ہی جلدی کرے جیسے وہ انہیں خیر اور بھلائی پہنچانے کے لیے جلدی کرتا ہے) پھر تعجیلا کو کلام سے حذف کردیا گیا ہے اور اس کی صفت کو اس کے قائم مقام رکھ دیا، پھر اس کی صفت کو حذف کردیا اور مضاف الیہ کو اس کے قائم مقام رکھ دیا۔ یہ خلیل اور سیبویہ کا مذہب ہے۔ اور اخفش اور فراء کے قول کے مطابق یہ کا ستعجالھم ہے پھر کاف کو حذف کردیا اور اسے نصب دے دی۔ فراء نے کہا ہے : جیسے تو کہتا ہے : ضربت زیدا ضربک ای کضربک ( یعنی اس میں کاف کو حذف کیا گیا ہے) اور ابن عامر نے آیت : لقضی الیھم اجلھم پڑھا ہے اور یہ قراءت عمدہ ہے کیونکہ اس قول کے ساتھ متصل ہے : آیت : ولو یعجل اللہ للناس الشر۔ قولہ تعالیٰ : آیت : فنذر الذین لا یرجون لقاء نا یعنی وہ انہیں شر پہنچانے میں جلدی نہیں کرتا بسا اوقات ان میں سے کوئی توبہ کرنے والا توبہ کرلیتا ہے یا ان کی پشتوں سے کوئی مومن پیدا ہوتا ہے۔ آیت : فی طغیانھم یعمھون تاکہ وہ اپنی سرکشی میں متحیر رہیں۔ طغیان کا معنی بلندی اور رفعت ہے۔ یہ سورة البقرہ میں پہلے گزر چکا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس آیت میں اہل مکہ مراد ہیں۔ اور یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب انہوں نے یہ کہا : آیت : اللھم ان کان ھذا ھوالحق من عندک الایہ (الانفال : 32) جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے، واللہ اعلم
Top