Al-Qurtubi - Yunus : 44
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْئًا وَّ لٰكِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَظْلِمُ : ظلم نہیں کرتا النَّاسَ : لوگ شَيْئًا : کچھ بھی وَّلٰكِنَّ : اور لیکن النَّاسَ : لوگ اَنْفُسَھُمْ : اپنے آپ پر يَظْلِمُوْنَ : ظلم کرتے ہیں
خدا تو لوگوں پر کچھ ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔
آیت نمبر : 44۔ جب شقی (اور بدبخت) لوگوں کا ذکر کیا تو ساتھ ہی یہ ذکر بھی کیا کہ اس نے ان کے ساتھ کوئی ظلم نہیں کیا اور یہ کہ ان پر شقاوت کا چھا جانا اور دل کی سماعت اور بصارت کا سلب ہوجانا اس کی طرف سے ظلم اور زیادتی نہیں ہے، کیونکہ وہ اپنی ملکیت میں جیسے چاہے تصرف کرسکتا ہے اور وہ اپنے جمیع افعال میں عادل ہے۔ (آیت) ” ولکن الناس انفسھم یظلمون “۔ لیکن لوگ اپنے نفسوں پر کفر، معصیت اور اپنے خالق کے حکم کی مخالفت کرکے ظلم کرتے ہیں (1) (تفسیر الطبری، زیر آیت ہذہ) حمزہ اور کسائی نے (آیت) ” مخفف اور (آیت) ” الناس “ کو مرفوع پڑھا ہے، نحاس نے کہا ہے : نحویوں کی جماعت جس میں فراء بھی ہیں ان کا خیال ہے کہ عرب جب کہیں ولکن واؤ کے ساتھ تو تشدید کو ترجیح دیتے ہیں (یعنی ولکن پڑھتے ہیں) اور جب واؤ کو حذف کردیں تو تخفیف کو ترجیح دیتے ہیں (یعنی لکن پڑھتے ہیں) اور اس میں علت یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ جب بغیر واؤ کے ہو تو یہ بل کے مشابہ ہوتا ہے پس انہوں نے اسے مخفف کردیا تاکہ اس کا مابعد کی طرح ہوجائے اور جب یہ واؤ کے ساتھ آئے تو بل کے مخالف ہوتا ہے پس انہوں نے اسے مشدد کردیا اور اس کے ساتھ (مابعد کو) نصب دی، کیونکہ یہ ان ہے جس پر لام اور کاف کا اضافہ کیا گیا ہے اور اسے ایک حرف بنا دیا گیا ہے اور شاعر کا قول ہے : ولکننی من حبھا لعمید : پس لعمید لام کے ساتھ ہے، کیونکہ (لکن) اصل میں ان ہے۔
Top