Al-Qurtubi - Yunus : 51
اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ اٰمَنْتُمْ بِهٖ١ؕ آٰلْئٰنَ وَ قَدْ كُنْتُمْ بِهٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ
اَثُمَّ : کیا پھر اِذَا : جب مَا وَقَعَ : واقع ہوگا اٰمَنْتُمْ : تم ایمان لاؤ گے بِهٖ : اس پر آٰلْئٰنَ : اب وَقَدْ كُنْتُمْ : اور البتہ تم تھے بِهٖ : اس کی تَسْتَعْجِلُوْنَ : تم جلدی مچاتے تھے
کیا جب وہ آ واقع ہوگا (تب اس پر ایمان لاؤ گے ؟ ) (اس وقت کہا جائیگا کہ) اور اب (ایمان لائے) اسی کے لئے تو تم جلدی مچایا کرتے تھے۔
آیت نمبر : 51۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” اثم اذا ما وقع امنتم بہ “۔ آلئن “ اس کلام میں حذف ہے، تقدیر کلام ہے : اتامنون ان ینزل بکم العذاب ثم یقال لکم اذاحل : الان امنتم بہ ؟ (کیا تم ایمان لاؤگے کہ تم پر عذاب نازل کیا جائے پھر تم تم کو کہا جائے گا جب وہ آجائے : اب تم اس کے ساتھ ایمان لاؤ گے ؟ کہا گیا ہے : یہ ان کے ساتھ بطور استہزا ملائکہ کا قول ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ اللہ تعالیٰ کے قول میں سے ہے اور ہمزہ استفہام ثم پر داخل ہوا ہے یہ تقریر وتوبیخ کے لیے ہے اور تاکہ یہ اس پر دلالت کہ دوسرے جملے کا معنی پہلے بعد ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک یہاں ثم بمعنی ثم (ثا کے فتحہ کے ساتھ) ہے پس یہ ظرف ہوگی اور اس کا معنی ہوگا : اھنالک یہ علامہ طبری کا مذہب ہے (1) (تفسیر طبری سورة یونس : جلد 11، صفحہ 141) اور اس وقت اس میں استفہام کا معنی نہ ہوگا۔ اور الآن کے بارے کہا گیا ہے کہ یہ اصل میں حان کی مثل فعل مبنی ہے اور پھر اسے اسم کی طرف پھیرنے کے لیے اس پر لام لگایا گیا ہے اور خلیل نے کہا ہے : اسے التقاء ساکنین کی وجہ سے بنایا گیا ہے اور الف لام عہدی ہے اشارہ وقت کی طرف ہے، اور یہ دو زمانوں کی حد ہے۔ (آیت) ” وقد کنتم بہ “۔ تم تو اس عذاب کے لیے (آیت) ” تستعجلون “ جلدی مچا رہے تھے۔
Top