Al-Qurtubi - Yunus : 54
وَ لَوْ اَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِی الْاَرْضِ لَافْتَدَتْ بِهٖ١ؕ وَ اَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ١ۚ وَ قُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر ہو اَنَّ : ہو لِكُلِّ نَفْسٍ : ہر ایک کے لیے ظَلَمَتْ : اس نے ظلم کیا (ظالم) مَا : جو کچھ فِي الْاَرْضِ : زمین میں لَافْتَدَتْ : البتہ فدیہ دے دے بِهٖ : اس کو وَاَسَرُّوا : اور وہ چپکے چپکے ہوں گے النَّدَامَةَ : پشیمان لَمَّا : جب رَاَوُا : وہ دیکھیں گے الْعَذَابَ : عذاب وَقُضِيَ : اور فیصلہ ہوگا بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان بِالْقِسْطِ : انصاف کے ساتھ وَھُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے
اور اگر ہر ایک نافرمان شخص کے پاس روئے زمین کی تمام چیزیں ہوں تو (عذاب سے بچنے کے) بدلے میں (سب) دے ڈالے اور جب وہ عذاب کو دیکھیں گے تو پچھتائیں گے (اور) ندامت کو چھپائیں گے۔ اور ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا اور (کسی طرح کا) ان پر ظلم نہیں ہوگا۔
آیت نمبر : 54۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولو ان لکل ظلمت “ یعنی اگر ہر شخص کے لیے جس نے شرک کیا اور کفر کیا۔ (آیت) ” ما فی الارض “ یعنی وہ سب اس کی ملکیت ہو جو زمین میں ہے۔ (آیت) ” لافتدت بہ “ وہ ساری دولت اللہ تعالیٰ کے عذاب کے بدلے فدیہ دے دے تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” ان الذین کفروا وما توا وھم کفار فلن یقبل من احدھم ملء الارض ذھبا ولو افتدی “۔ (آل عمران : 91) (جن لوگوں نے کفر کیا اور مرگئے کفر ہی کی حالت میں تو ہر گز قبول نہ کیا جائے گا ان میں سے کسی سے زمین بھر سونا اگرچہ وہ (اپنی نجات کے لیے) عوضا نہ دے اتنا سونا) اور یہ بحث گزر چکی ہے۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” واسروا الندامۃ “۔ یعنی انہوں نے ندامت کو مخفی رکھا، یعنی ان کے سرداروں نے، مراد یہ ہے کہ انہوں نے اپنی ندامت کو اپنے متبعین سے چھپا کر رکھا (1) (تفسیر ماوردی، سورة یونس، جلد 2، صفحہ 438) (آیت) ” لما راوالعذاب “۔ (جب انہوں نے عذاب کو دیکھا) اور یہ آگ میں جلائے جانے سے پہلے ہے اور جب وہ جہنم میں واقع ہوں گے تو آگ انہیں ایسا کرنے سے غافل کر دے گی، اس کی دلیل ان کا یہ قول ہے : (آیت) ” ربنا غلبت علینا شقوتنا “۔ (المومنوں : 106) (اے ہمارے رب ! غالب آگئی تھی ہم پر ہماری بدبختی) پس ظاہر ہوگیا کہ وہ اسے نہیں چھپاسکیں گے جو انہیں لاحق ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اسروا بمعنی اظھروا (یعنی وہ ظاہر کردیں گے) اور یہ کلمہ اضداد میں سے ہے اور اس پر دلیل یہ بھی ہے کہ آخرت مضبوطی اور صبر دکھانے کا دار نہیں ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : وہ اپنے دلوں میں حسرت کا درد پانے لگے، کیونکہ ندامت کو ظاہر کرنا ممکن نہیں ہوتا، کثیر نے کہا ہے : فاسررت الندامۃ یوم نادی برد جمال غاضرۃ المنادی : اور مبرد نے اس میں ایک تیسری وجہ ذکر کی ہے کہ ان کے چہروں کے خطوط ندامت کو ظاہر کردیں اور یہ پیشانی کی لکیریں (اور خدوخال) ہیں، اور اسرہ کا واحد سرار ہے، اور ندامت سے مراد وہ حسرت ہے جو کسی شے کے واقع ہونے یافوت ہونے کی وجہ سے ہو، اور اس کا اصل معنی تو لازم ہوتا ہے، اور اسی سے ندیم ہے کیونکہ وہ مجالس کو لازم پکڑتا ہے، اور فلان نادم سادم (فلاں نادم اور غمگین ہے) اور السدم اللھج بالشیء (سدم کا معنی شیفتہ ہونا ہے) اور ندم وتندم بالشی یعنی کسی شی کے سبب غمگین ہوا، جوہری نے کہا ہے : السدم کا معنی ندامت اور حزن ہے۔ اور سدم کسرہ کے ساتھ ہو تو معنی غمگین ہونا اور پریشان ہونا ہے، اور رجل نادم سادم، وندمان سدمان “۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اس (نادم) کے تابع ہے اور مالہ ھم ولا سدم الا ذالک یعنی اس کے لیے نہ کوئی غم ہے نہ پریشانی سوائے اس کے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ الندم الدمن کا مقلوب ہے۔ اور الدمن کا معنی لازم ہونا ہے، اور اس سے ہی فلان مدمن الخمر فلان شراب کو لازم پکڑنے والا ہے یعنی ہمیشہ شراب پینے والا ہے) اور الدمن سے مراد وہ شے ہے جو گھر میں جمع ہو اور تلبد من الابوال والابعار (اور بول وبراز اور گوبر (کھاد) جمع ہوگیا) اس کے لازم ہونے کی وجہ سے اسے یہ نام دیا گیا ہے، اور الدمنۃ اس سے مراد وہ کینہ ہے جو سینے کو لازم پکڑے ہوتا ہے۔ اور اس کی جمع دمن ہے۔ اور قد دمنت قلوبھم (ان کے دل کینے سے بھر گئے) کہا جاتا ہے : دمنت علی فلان ای ضفنت (یعنی میں نے فلان کے لیے کینہ رکھا) (آیت) ” وقضی بینھم بالقسط “ یعنی رؤسا اور ادنی لوگوں کے درمیان عدل سے فیصلہ کردیا گیا، (آیت) ” وھم لا یظلمون “ اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
Top