Al-Qurtubi - Yunus : 58
قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا١ؕ هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں بِفَضْلِ : فضل سے اللّٰهِ : اللہ وَبِرَحْمَتِهٖ : اور اس کی رحمت سے فَبِذٰلِكَ : سو اس پر فَلْيَفْرَحُوْا : وہ خوشی منائیں ھُوَ : وہ۔ یہ خَيْرٌ : بہتر مِّمَّا : اس سے جو يَجْمَعُوْنَ : وہ جمع کرتے ہیں
کہہ دو کہ (یہ کتاب) خدا کے فضل اور اس کی مہربانی سے (نازل ہوئی ہے) تو چاہئے کہ لوگ اس سے خوش ہوں۔ یہ اس سے کہیں بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔
آیت نمبر : 58۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” قل بفضل اللہ وبرحمتہ “۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے کہ فضل اللہ سے مراد قرآن کریم اور رحمت سے مراد اسلام ہے، اور انہی دونوں سے یہ بھی روایت ہے کہ فضل اللہ سے مراد قرآن کریم ہے اور رحمت سے مراد یہ ہے کہ اس نے تمہیں اس کے اہل بنایا (1) (تفسیر طبری، سورة یونس، جلد 11، صفحہ 144) اور حضرت حسن (رح) ضحاک ؓ ، مجاہد ؓ اور قتادہ ؓ نے کہا ہے : فضل اللہ سے مراد ایمان ہے اور رحمتہ سے مراد قرآن ہے (2) (معالم التنزیل، سورة یونس، جلد 3، صفحہ 164) یہ پہلے قول کے برعکس ہے، اس کے علاوہ بھی قول کیے گئے ہیں۔ (آیت) ” فبذلک فلیفرحوا “۔ یہ اشارہ فضل اور رحمت کی طرف ہے اور عرب، ذالک کو واحد، تثنیہ اور جمع کے لیے بطور اشارہ لاتے رہتے ہیں، اور حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ سے روایت ہے کہ آپ نے فبذالک فلتفرحوا تا کے ساتھ قرات کی ہے۔ اور یہ یزید بن قعقاع اور یقوب وغیرہ کی قرات ہے۔ اور حدیث میں ہے۔ لتاخذوا مصافکم “۔ (3) (جامع ترمذی باب من سورة ص، حدیث نمبر 3159، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (چاہیے کہ تم اپنی صفوں میں رہو) اور الفرح سے مراد لذۃ فی القلب بادراک المحبوب (وہ لذت ہے جو محبوب کے ملنے سے دل میں محسوس ہوتی ہے) اور کئی مقامات پر فرح (خوشی) کی مذمت بیان کی گئی ہے، مثلا قول باری تعالیٰ : (آیت) ” لا تفرح ان اللہ لا یحب الفرحین “۔ (القصص) (زیادہ خوش نہ ہو بیشک اللہ تعالیٰ دوست نہیں رکھتا اترانے والوں کو) اور (آیت) ” انہ لفرح فخور “۔ (ہود) (بےشک وہ بڑا خوش ہونے والا اترانے والا ہے) لیکن یہ مطلق ہے اور فرحت کو مقید کردیا جائے تو وہ مذموم نہیں ہوتی، کیونکہ اس کا ارشاد ہے : (آیت) ” فرحین بما اتھم اللہ من فضلہ “۔ (آل عمران : 170) (شاد ہیں ان (نعمتوں) سے جو عنایت فرمائی ہیں انہیں اللہ نے اپنے فضل وکرم سے) اور یہاں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” فبذلک فلیفرحوا “۔ یعنی قرآن اور اسلام کے ساتھ چاہیے کہ وہ خوشی منائیں پس یہ مقید ہے۔ ہارون نے کہا ہے : حضرت ابی ؓ کی قرات میں فذالک فافرحوا “ ہے، نحاس نے کہا ہے : امر کا طریقہ یہ ہے کہ وہ لام کے ساتھ ہوتا کہ اس کے ساتھ حرف جازم ہو جیسا کہ نہی کے ساتھ حرف ہوتا ہے، مگر وہ امر سے مخاطب کے لیے حذف کردیتے ہیں کیونکہ اس کے خطاب کے سبب اس کی ضرورت نہیں ہوتی، اور بسا اوقات وہ اسے اپنے اصل کے مطابق لے آتے ہیں۔ اور اسی سے فبذالک فلتفرحوا ہے۔ (آیت) ” ھو خیرمما یجمعون “۔ یعنی یہ ان چیزوں سے بہتر ہے جو وہ دنیا میں جمع کرتے ہیں، دونوں فعلوں میں عام قرات یا کے ساتھ ہے، اور ابن عامر سے روایت ہے کہ انہوں نے فلیفرحوا یا کے ساتھ اور تجمعون، تا کے ساتھ پڑھا ہے۔ (1) (معالم التنزیل، سورة یونس، جلد 3، صفحہ 164) اس لیے کہ یہ خطاب کافروں کو ہے، اور حضرت حسن (رح) سے روایت ہے کہ انہوں نے پہلے میں تا کے ساتھ قرات کی ہے۔ اور (آیت) ” یجمعون “ میں یا کے ساتھ یعنی پہلے قول کا برعکس ہے، اور ابان نے حضرت انس ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے فرمایا :” سے اللہ تعالیٰ نے اسلام کی ہدایت عطا فرمائی اور قرآن کریم کا علم سکھایا پھر وہ فاقہ کی شکایت کرے اللہ تعالیٰ اس کی آنکھوں کے درمیان فقر لکھ دے گا اس دن تک جس میں وہ اسے ملے گا “۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (آیت) ” قفضل اللہ وبرحمتہ فبذلک فلیفرحوا، ھو خیر مما یجمعون “۔ (من ھداہ اللہ الاسلام وعلمہ القرآن ثم شکا الفاقۃ کتب اللہ الفقر بین عینیہ الی یوم یلقاہ) (2) (تفسیر ماوردی سورة یونس، جلد 2، صفحہ 439، تفسیر درمنثور)
Top