Al-Qurtubi - Yunus : 60
وَ مَا ظَنُّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَشْكُرُوْنَ۠   ۧ
وَمَا : اور کیا ظَنُّ : خیال الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَفْتَرُوْنَ : گھڑتے ہیں عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر الْكَذِبَ : جھوٹ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَذُوْ فَضْلٍ : فضل کرنے والا عَلَي النَّاسِ : لوگوں پر وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَھُمْ : ان کے اکثر لَا يَشْكُرُوْنَ : شکر نہیں کرتے
اور جو لوگ خدا پر افترا کرتے ہیں وہ قیامت کے دن کی نسبت کیا خیال رکھتے ہیں ؟ بیشک خدا لوگوں پر مہربان ہے۔ لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔
آیت نمبر : 60۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وما ظن الذین یفترون علی اللہ الکذب یوم القیمۃ “ اس میں یوم ظرف ہونے کی بنا پر منصوب ہے یا ظن کی وجہ سے جیسا کہ ما ظنک زیدا ہے اور اس کا معنی ہے کیا وہ گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے ان کا مواخذہ نہیں فرمائے گا (1) (معالم التنزیل، سورة یونس، جلد 3، صفحہ 165) (آیت) ” ان اللہ لذو فضل علی الناس “۔ بیشک اللہ تعالیٰ (اس میں) تاخیر کر کے اور مہلت دے کر لوگوں پر فضل وکرم فرماتا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس سے اہل مکہ کا ارادہ کیا ہے جس وقت انہیں حرم پاک میں پرامن بنا دیا۔ (آیت) ” ولکن اکثرھم “۔ یعنی کفار (آیت) ” لا یشکرون “ اللہ تعالیٰ کا اس کی نعمتوں پر شکر ادا نہیں کرتے اور نہ ہی اپنے سے عذاب کو مؤخر کرنے میں (اس کا شکر کرتے ہیں) اور یہ بھی کہا گیا ہے : لا یشکرون کا معنی ہے لا یوحدون یعنی اس کی وحدانیت کا اقرار نہیں کرتے۔
Top