Al-Qurtubi - Yunus : 81
فَلَمَّاۤ اَلْقَوْا قَالَ مُوْسٰى مَا جِئْتُمْ بِهِ١ۙ السِّحْرُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَیُبْطِلُهٗ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِیْنَ
فَلَمَّآ : پھر جب اَلْقَوْا : انہوں نے ڈالا قَالَ : کہا مُوْسٰى : موسیٰ مَا : جو جِئْتُمْ بِهِ : تم لائے ہو السِّحْرُ : جادو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ سَيُبْطِلُهٗ : ابھی باطل کردے گا اسے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يُصْلِحُ : نہیں درست کرتا عَمَلَ : کام الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
جب انہوں نے (اپنی رسیوں اور لاٹھیوں کو) ڈالا تو موسیٰ نے کہا جو چیزیں تم (بناکر) لائے ہو جادو ہے خدا اس کو ابھی نیست و نابود کر دے گا۔ خدا شریروں کے کام سنوارا نہیں کرتا۔
آیت نمبر 81 قولہ تعالیٰ : (آیت) فلما القواقال موسیٰ ماجئتم بہ السحر اس میں مامبتدا ہونے کے سبب محل رفع میں ہوگا اور اس کی خبر جئتم بہ ہے۔ اور تقدیر عبارت ہے : ای شی جئتم بہ (جو شے بھی تم لے کر آئے ہو) یہ ایک توزجر وتوبیخ کے لیے ہے اور دوسرا جو جادولے کر آئے اس کی حقارت بیان کرنے کے لیے ہے۔ اور ابو عمرو کی قراءت السحر استفہام کی طرز پر ہے اس صورت میں مبتدا مضمر ہوگا اور تقدیر عبارت ہوگی اھوالسحر (کیا وہ جادو ہے ) ۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ مبتدا ہو اور خبر محذوف ہو اور تقدیر عبارت ہو : السحر جئتم بہ۔ اور جنہوں نے استفہام کی صورت میں قراءت کی ہے ان کے مطابق مابمعنی الذی نہیں ہوگا، کیونکہ اس کی کوئی خبر نہیں۔ اور باقیوں نے خبر ہونے کی بنا پر السحر پڑھا ہے۔ اور اس قراءت کی دلیل حضرت ابن مسعود ؓ کی قراءت ہے : ماجئتم بہ سحر اور حضرت ابی ؓ کی قراءت : ما آتیتم بہ سحر (جو تم لائے ہوجادو ہے) پس مابمعنی الذی ہے اور جئتم بہ صلہ ہے اور مبتدا ہونے کی وجہ سے مامحل رفع میں ہے۔ اور السحرمبتدا کی خبر ہے اور ماکوجب بمعنی الذی بنائیں گے تو پھر وہ منصوب نہیں ہوگا کیونکہ صلہ موصول میں عمل نہیں کرسکتا۔ اور فراء نے السحر کو جئتم کے سبب نصب دینے کو جائز قرار دیا ہے اور ماشرط کے لیے ہو، اور جئتم محل جزم میں ہو اور فاء محذوف ہو۔ اور تقدیر ہوگی : فان اللہ سیبطلہ (تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ اسے باطل (ختم) کردے گا) اور یہ بھی جائز ہے کہ السحر کو مصدر ہونے کی بنا پر نصب دی جائے۔ ای ماجئتم نہ سحرا، پھر اس پر الف لام زائدہ داخل کردیا گیا ہو، پس اس تقدیر پر حذف فا کی حاجت اور ضرورت نہیں ہوگی اور نحاس نے اس قول کو پسند کیا ہے اور کہا ہے : مجازات میں فاء کے حذف کو اکثر نحوی جائز قرار دیتے مگر ضرورت شعر کے لیے، جیسا کہ کسی نے کہا ہے : من یفعل الحسنات اللہ یشکرھا ” جو نیکیاں کرتا ہے اللہ تعالیٰ ان کی قدر کرتا ہے “۔ بلکہ بسا اوقات بعض نے کہا ہے : یہ قطعاجائز نہیں ہے۔ اور میں نے علی بن سلیمان کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے، مجھے محمد بن یزید نے بیان کیا اس نے کہا مجھے مازنی نے بیان کیا، اس نے کہا میں نے اصمعی کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے : نحویوں نے اس شعر کو بدل دیا ہے اور روایت یہ ہے : من یفعل الخیر فالرحمن یشکرہ۔ اور میں نے علی بن سلیمان کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے : مجازاۃ میں فاکاحذف جائز ہے، انہوں نے کہا ہے : اس پر دلیل یہ ارشاد گرامی ہے : (آیت) ومآاصابکم من مصیبۃ فبماکسبت ایدیکم (الشوری : 30) وما اصابکم من مصیبۃ بماکسبت ایدیکم اس میں یہ دونوں قراءتیں (فا کے ساتھ اور فا کے بغیر) مشہورومعروف ہیں۔ (آیت) ان اللہ لایصلح عمل المفسدین مراد سحر ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : جو کوئی رات کے وقت اپنے بستر پر گیا پھر یہ آیت پڑھی : (آیت) ماجئتم بہ السحر ان اللہ سیبطلہ ان اللہ لایصلح عمل المفسدین کسی جادوگر کی تدبیر اور مکر اسے نقصان نہیں دے گا اور اگر کسی سحرزدہ کو یہ لکھ کردی گئی تو اللہ تعالیٰ اس سے سحر دور فرمادے گا۔
Top