Al-Qurtubi - Yunus : 92
فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰیَةً١ؕ وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ۠   ۧ
فَالْيَوْمَ : سو آج نُنَجِّيْكَ : ہم تجھے بچا دیں گے بِبَدَنِكَ : تیرے بدن سے لِتَكُوْنَ : تاکہ تو رہے لِمَنْ : ان کے لیے جو خَلْفَكَ : تیرے بعد آئیں اٰيَةً : ایک نشانی وَاِنَّ : اور بیشک كَثِيْرًا : اکثر مِّنَ النَّاسِ : لوگوں میں سے عَنْ : سے اٰيٰتِنَا : ہماری نشانیاں لَغٰفِلُوْنَ : غافل ہیں
تو آج ہم تیرے بدن کو (دریا سے) نکال لیں گے تاکہ تو پچھلوں کیلئے عبرت ہو۔ اور بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بیخبر ہیں۔
آیت نمبر 92 قولہ تعالیٰ : (آیت) فلیوم ننجیک ببدنک یعنی ہم تجھے زمین کے ایک بلند حصے میں پھینک دیں گے اور یہ اس لیے کہا کیونکہ بنی اسرائیل تصدیق نہ کرتے کہ فرعون غرق ہوچکا ہے۔ اور وہ کہتے : اس کی شان اس سے کہیں زیادہ اور عظیم ہے، پس اللہ تعالیٰ نے اسے زمین کے ایک بلند حصہ پر پھینک دیا یہاں تک کہ انہوں نے اس کا مشاہدہ کرلیا۔ اوس بن حجر بارش کا وصف بیان کرتا ہے : فمن بعقوتہ کمن بنجوتہ والمستکن کمن یمشی بقرواح یزیدی اور ابن السمیقع نے ننحیک حا کے ساتھ پڑھا ہے یہ تنحیۃ سے ماخوذ ہے اور اسے علقمہ نے حضرت ابن مسعود ؓ سے بیان کیا ہے، یعنی تو سمندر کے کنارے پر ہوگا۔ ابن جریج نے کہا ہے : پس اسے ساحل سمندر پر پھینک دیا گیا یہاں تک کہ اسے بنی اسرائیل نے دیکھ لیا، وہ چھوٹے قد کا اور سرخ رنگ کا تھا گو یا کہ وہ بیل ہے۔ علقمہ نے حضرت عبداللہ ؓ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے بندائک پڑھا ہے اور یہ النداء سے ماخوذ ہے۔ ابوبکر انباری نے کہا ہے : اور یہ ہمارے مصحف کے حروف ہجہ کے مخالف نہیں ہے، کیونکہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اسے یا اور دال کے بعد کاف سے لکھا جائے، کیونکہ مصحف کے خط کی ترتیب میں ندائک سے الف گرجاتا ہے جیسا کہ ظلمات اور سموات سے ساقط ہوگیا ہے، پس جب اس میں حذف واقع ہوا تو بدنک اور ندائک کے حروف ہجہ برابر ہوگئے، اسی بنا پر اس قراءت سے اعراض برتا گیا ہے، کیونکہ یہ شاذ ہے اور جو عام مسلمانوں کی قراءت ہے وہ اس کے خلاف ہے، قراءت سنت ہے اسے بعد میں آنے والا پہلے سے لیتا ہے اور ہماری قراءت کی تاویل کے سبب اس کے معنی میں نقص ہے، کیونکہ اس میں زرہ کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ اور وہ معنی جس کے بارے مسلسل آثار ہیں وہ یہ ہے کہ فرعون کے غرق ہونے کے بارے بنی اسرائیل کے درمیان اختلاف ہوگیا اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں التجاء کی کہ وہ انہیں غرق شدہ فرعون دکھائے چناچہ انہوں نے اسے زمین کے بلند حصہ پر اس کے بدن سمیت پالیا اور یہ اس کی وہ زرہ ہے جو وہ جنگوں میں پہنا کرتا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ اور محمد بن کعب قرظی نے کہا ہے : اس کی زرہ پر وئے ہوئے موتیوں سے بنی ہوئی تھی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ سونے کی تھی اور وہ اسی کے سبب پہچانا جاتا تھا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ لوہے کی تھی۔ ابو الصخر نے کہا ہے : البدن سے مراد چھوٹی سی زرہ ہے۔ اور ابو عبیدہ نے اعشی کا شعر بیان کیا ہے : وبیضاء کالنھی موضونۃ لھاقونس فوق جیب البدن اور عمر بن معدیکرب کا بھی شعر بیان کیا ہے : ومضی نساء ھم بکل مفاضۃ جدلاء سابغۃ وبالابدان اور کعب بن مالک نے کہا ہے : تری الابدان فیھا مسبغات علی الابطال والیلب الحصینا اس میں ابدان سے مراد زرہیں ہیں اور یلب سے مراد یمنی زرہیں ہیں، یہ چمڑے سے بنائی جاتی تھیں اسے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ سیا جاتا تھا۔ اور یہ اسم جنس ہے اس کا واحد یلبۃ ہے عمرو بن کلثوم نے کہا ہے : علینا البیض والیلب الیمانی واسیاف یقمن و ینحنینا اور یہ بھی کہا گیا ہے : ببدنک سے مراد وہ جسم ہے جس میں روح نہ ہو۔ یہ مجاہد۔ نے کہا ہے۔ اخفش نے کہا ہے : رہا ان کا قول جنہوں نے بدرعک (تیری زرہ کے ساتھ) تو یہ کوئی شے نہیں ہے۔ ابوبکر نے کہا ہے : کیونکہ جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں زاری کی اور غرق شدہ فرعون کو دیکھنے کی التجا کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے ان کے لیے ظاہر کردیا اور انہوں نے وہ جسم دیکھ لیا جس میں روح نہ تھی، پس جب بنی اسرائیل نے اسے دیکھ لیاتو کہا : ہاں، اے موسیٰ ! یہ فرعون ہی ہے اور غرق کردیا گیا ہے۔ پس ان کے دلوں سے شک نکل گیا اور سمندر نے فرعون کو نگل لیا جیسے وہ پہلے تھا۔ اس بنا پر ننجیک ببدنک دو معنوں کا احتمال رکھتا ہے ؟ ایک یہ ہے کہ ہم تجھے زمین کے بلند حصے پر پھینک دیں گے اور دوسرا یہ کہ ہم تیرے اس جسم کو ظاہر کردیں گے جس میں روح نہیں۔ اور شاذ قراءت بیدنک اس کا معنی جمہور کی قراءت کے معنی کی طرف ہی راجع ہے، کیونکہ ندا کی دو تفسیریں بیان کی جاتی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے ہم تجھے تیرے کلمہ توبہ کہنے کے سبب بلند جگہ پر ڈال دیں گے اور تیرے اس قول کے سبب جو اس کا دروازہ بند ہونے کے بعد اور اس کے قبول ہونے کا وقت گزرجانے کے بعد تو نے کہا : (آیت) امنت انہ لا الہ الا الذی امنت بہ بنو اسرائیل وانا من المسلمین اور دوسرا معنی یہ ہے کہ آج ہم تجھے سمندر کی گہرائی سے تیری ندا کے سبب جدا کردیں گے جو تونے یہ کہا : اناربکم الاعلی پس اسے بدن سمیت نجات دینا رب العالمین کی طرف سے بطور سزا تھا اس کے اس کفر میں انتہائی غلو اور زیادتی کرنے کے سبب جس میں اس نے اللہ تعالیٰ پر افترا باندھا اور مبہوت ہوگیا۔ اور قدرت اور ایسے امر کا دعوی کیا جس کے بارے وہ جانتا تھا کہ وہ اس میں جھوٹ بول رہا ہے، اس سے عاجز ہے اور اس کا مستحق نہیں ہے۔ ابوبکر انباری نے کہا ہے : پس ہماری قراءت ان معانی کو متضمن ہے جو قراءت شاذہ میں پائے جاتے ہیں بلکہ ان سے زائد کو بھی متضمن ہے۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) لتکون لمن خلفک ایۃ یعنی بنی اسرائیل کے لیے اور قوم فرعون کے ان باقی ماندہ لوگوں کے لیے جو غرق نہیں ہوئے اور ان تک یہ خبر نہیں پہنچی۔ (آیت) وان کثیرا من الناس عن ایتنا لغافلون یعنی بہت سے لوگ ہماری آیات میں غورو فکر کرنے اور ان میں سوچ و بچار کرنے سے اعراض کرنے والے ہیں۔ اور لمن خلفک لام کے فتحہ کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے، یعنی ان کے لیے جو تیرے بعد باقی رہیں گے اور تیری زمین میں تیرے پیچھے آئیں گے۔ اور حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے لمن خلقک قاف کے ساتھ قراءت کی ہے یعنی تاکہ تو اپنے خالق کی نشانی ہوجائے۔
Top