Al-Qurtubi - Yunus : 94
فَاِنْ كُنْتَ فِیْ شَكٍّ مِّمَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ فَسْئَلِ الَّذِیْنَ یَقْرَءُوْنَ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكَ١ۚ لَقَدْ جَآءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَۙ
فَاِنْ : پس اگر كُنْتَ : تو ہے فِيْ شَكٍّ : میں شک میں مِّمَّآ : اس سے جو اَنْزَلْنَآ : ہم نے اتارا اِلَيْكَ : تیری طرف فَسْئَلِ : تو پوچھ لیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَقْرَءُوْنَ : پڑھتے ہیں الْكِتٰبَ : کتاب مِنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے لَقَدْ جَآءَكَ : تحقیق آگیا تیرے پاس الْحَقُّ : حق مِنْ : سے رَّبِّكَ : تیرا رب فَلَا تَكُوْنَنَّ : پس نہ ہونا مِنَ : سے الْمُمْتَرِيْنَ : شک کرنے والے
اگر تم کو اس (کتاب کے) بارے میں جو ہم نے تم پر نازل کی ہے کچھ شک ہو تو جو لوگ تم سے پہلے کی (اتری ہوئی) کتابیں پڑھ تے ہیں ان سے پوچھ لو۔ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس حق آچکا ہے تو تم ہرگز شک کرنے والوں میں نہ ہونا۔
آیت نمبر 94 اور 95 قولہ تعالیٰ : (آیت) فان کنت فی شک مما انزلنا الیک یہ خطاب حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کو ہے اور مراد آپ کے سوا دوسرے ہیں، یعنی آپ تو شک میں نہیں ہیں لیکن آپ کے علاوہ دوسرے شک میں ہیں۔ ابو عمر محمد بن عبدالواحد الزاہد نے کہا ہے : میں نے دو اماموں ثعلب اور مبرد کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ (آیت) فان کنت فی شک کا معنی ہے : اے محمد ﷺ کافرکو فرمادیجئے اگر تو اس سے متعلق شک میں ہے جو ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے۔ (آیت) فسئل الذین یقرء ون الکتاب من قبلک یعنی اے بتوں کی پوجا کرنے والے اگر تجھے قرآن کریم کے بارے میں کوئی شک ہے تو ان لوگوں سے دریافت کرلے جو یہود میں سے اسلام لاچکے ہیں، یعنی حضرت عبداللہ بن سلام ؓ اور انہی کی مثل دیگر افراد کیونکہ بتوں کی پرستش کرنے والے یہودیوں کے بارے میں یہ اقرار کرتے تھے کہ وہ اس بارے ان سے زیادہ عالم ہیں، کیا اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کوئی اور رسول مبعوث فرمائے گا ؟ اور قتبی نے کہا ہے : یہ خطاب ان کو ہے جو نہ یقین کے ساتھ حضور ﷺ کی تکذیب کرتے ہیں اور نہ تصدیق کرتے ہیں، بلکہ شک میں ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : خطاب سے مراد حضور ﷺ کی ذات ہے کوئی اور نہیں اس کا معنی ہے : اگر آپ کو کوئی شک لاحق ہوجائے اس بارے میں جس کے متعلق ہم نے آپ کو خبر دی ہے تو آپ اہل کتاب سے دریافت کرلینا میں آپ سے شک زائل کردوں گا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : شک سے مراد سینے کی تنگی ہے، یعنی اگر آپ کا سینہ ان کے کفر کے سبب تنگ ہوجائے تو آپ صبر کیجئے۔ اور ان سے پوچھ لیں جو آپ سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں وہ آپ کو بتائیں گے آپ سے پہلے انبیاء (علیہ السلام) نے اپنی قوموں کی اذیت پر کیسے صبر کیا اور ان کے معاملے کا انجام کیا ہوا ؟ لغت میں شک کا اصل معنی تنگی ہے۔ کہا جاتا ہے : شک الثوب یعنی وہ اس کے سوراخوں کو بند کردے یہاں تک کہ وہ برتن کی طرح ہوجائے۔ اور اسی طرح مسافر کا توشہ دان ہے اس کے علائق (یعنی باندھنے کے دھاگے) کو کھینچا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ بند ہوجائے، پس شک سینے کو بند کردیتا ہے اور اسے سکیڑ دیتا ہے یہاں تک کہ وہ تنگ ہوجاتا ہے۔ اور حسین بن فضل نے کہا ہے : حروف شرط کے ساتھ فانہ فعل کو واجب کرتی ہے اور نہ اسے ثابت کرتی ہے، اور اس پر دلیل وہ روایت ہے جو حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب یہ آیت نازل ہوئی : واللہ لا اشک قسم بخدا میں شک نہیں کرتا۔ پھر نیاکلام کیا اور فرمایا : (آیت) لقد جاءک الحق من ربک فلاتکونن من الممترین یعنی شک کرنے والوں سے نہ ہوجانا۔ (آیت) ولا تکونن من الذین کذبوا بایات اللہ فتکون من الخاسرین ان دونوں آیتوں میں خطاب حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کو ہے اور مراد کوئی اور ہے۔ (1) (معالم التنزیل، زیر آیت ہذہ )
Top