Al-Qurtubi - Yunus : 99
وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِیْعًا١ؕ اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ
وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا رَبُّكَ : تیرا رب لَاٰمَنَ : البتہ ایمان لے آتے مَنْ : جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں كُلُّھُمْ جَمِيْعًا : وہ سب کے سب اَفَاَنْتَ : پس کیا تو تُكْرِهُ : مجبور کریگا النَّاسَ : لوگ حَتّٰى : یہانتک کہ يَكُوْنُوْا : وہ ہوجائیں مُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو جتنے لوگ زمین پر ہیں سب کے سب ایمان لے آتے۔ تو کیا تم لوگوں پر زبردستی کرنا چاہتے ہو کہ وہ مومن ہوجائیں ؟
آیت نمبر 99 قولہ تعالیٰ : (آیت) ولوشاء ربک لامن من فی الارض کلھم جمیعا یعنی وہ ان تمام کو ایمان لانے پر مجبور کردیتا۔ (آیت) کلھم، من کی تاکید ہے اور (آیت) جمیعاسیبویہ کے نزدیک حال ہونے کی بنا پر منصوب ہے۔ اور اخفش نے کہا ہے کہ جمیعا کا لفظ بھی کل کے بعد تاکید کے لیے آیا ہے، جیسا کہ یہ قول باری تعالیٰ ہے : (آیت) لاتتخذوا الھین اثنین (النحل : 51) (یعنی اس میں اثنین الھین کی تاکید کے لیے ہے) قولہ تعالیٰ : (آیت) افانت تکرہ الناس حتی یکونوا موء منین حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : حضور ﷺ تمام لوگوں کے ایمان لانے کے حریص تھے، تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دی کہ کوئی ایمان نہیں لاسکتا مگر وہی جو ذکر اول میں پہلے سعادت مند ہو اور کوئی گمراہ نہیں ہوسکتا مگر وہی جو ذکر اول میں پہلے شقی ہو (1) (تفسیر الطبری، جلد 12، صفحہ 298) ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہاں الناس سے مراد ابو طالب ہیں۔ اور یہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے۔
Top