Al-Qurtubi - Hud : 113
وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ١ۙ وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِیَآءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ
وَ : اور لَا تَرْكَنُوْٓا : نہ جھکو اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے ظَلَمُوْا : ظلم کیا انہوں نے فَتَمَسَّكُمُ : پس تمہیں چھوئے گی النَّارُ : آگ وَمَا : اور نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ دُوْنِ : سوا اللّٰهِ : اللہ مِنْ : کوئی اَوْلِيَآءَ : مددگا۔ حمایتی ثُمَّ : پھر لَا تُنْصَرُوْنَ : نہ مدد دئیے جاؤگے
اور جو لوگ ظالم ہیں انکی طرف مائل نہ ہونا نہیں تو تمہیں (دوزخ کی) آگ آ لپٹے گی۔ اور خدا کے سوا تمہارے اور دوست نہیں ہیں (اگر تم ظالموں کی طرف مائل ہوگئے) تو پھر تم کو (کہیں سے) مدد نہ مل سکے گی۔
آیت نمبر 113 اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: قولہ تعالیٰ : ولاترکنوٓا، رکون کی حقیقت کسی چیز سے سکون حاصل کرنا، اس پر اعتماد کرنا، اس کی طرف جھکنا اور اس پر راضی ہونا ہے۔ حضرت قتادہ نے فرمایا : اس کا معنی یہ ہے کہ انکے ساتھ محبت نہ کرو اور ان کی اطاعت نہ کرو۔ ابن جریج نے کہا : ان کی طرف جھکاؤ اختیار نہ کرو۔ ابوالعالیہ نے کہا : انکے اعمال کو پسند نہ کرو۔ یہ تمام کے تمام قریب قریب ہیں۔ ابن زید نے کہا : یہاں رکون سے مراد مداہنت ہے اور وہ یہ ہے کہ ان پر ان کے کفر کو وہ ناپسند نہ کرے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ جمہور نے ترکنوٓا کاف کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے، ابوعمرو نے کہا : یہ اہل حجاز کی لغت ہے۔ طلحہ بن مصرف۔ قتادہ اور دیگر لوگوں نے ترکنوٓا کاف کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے، فراء نے کہا : یہ تمیم اور قیس کی لغت ہے۔ اور بعض لوگوں نے رکن یرکن بروزن منع یمنع کو بھی جائز اور صحیح قرار دیا ہے۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ قولہٰ تعالیٰ : الی الذین ظلموا ایک قول یہ ہے : اس سے مراد مشرکین ہیں جب کہ ایک قول کے مطابق اس سے مراد عام کافر اور نافرمان لوگ ہیں، جس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی : واذارایت الذین یخوضون فیٓ اٰیٰتنا الایۃ (الانعام :68) ہے۔ اور جب تو ان لوگوں کو دیکھے گا جو ہماری آیتوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں، یہ گزر چکا ہے۔ اور آیت کے معنی میں یہی صحیح ہے اور یہ کفار اور بدعتیوں میں سے نافرمان لوگوں کو چھوڑنے پر دلالت کرتی ہے۔ یقیناً ان کی صحبت کفر یا معصیت ہے، کیونکہ صحبت صرف محبت ہی سے ہوتی ہے، ایک حکیم نے کہا ہے : عن المرء لا تسأل وسل عن قرینہ فکل قرین بالمقارن یقتدی آدمی کے بارے میں نہ پوچھ، ان کے دوست کے بارے میں پوچھ، ہر دوست اپنے دوست کی اقتدا کرتا ہے۔ اور اگر صحبت صرف ضرورت یا تقیہ کی بنیاد پر ہو تو اس کے بارے میں سورة آل عمران اور المائدہ میں گفتگو گزر چکی ہے۔ اور مجبوری کی حالت میں تقیۃ پر ظالم کی صحبت نہی سے مشتثنی ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ قولہ تعالیٰ : فتمسکم النار یعنی ان کے ساتھ ملنے، صحبت اختیار کرنے، ان کے اعراض کے باوجود ان کی طرف میلان اور جھکاؤ رکھنے اور ان کے معاملات میں ان کی موافقت کرنے کی وجہ سے آگ تمہیں بھی چلائے گی۔
Top