Al-Qurtubi - Hud : 15
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ
مَنْ : جو كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَزِيْنَتَهَا : اور اس کی زینت نُوَفِّ : ہم پورا کردیں گے اِلَيْهِمْ : ان کے لیے اَعْمَالَهُمْ : ان کے عمل فِيْهَا : اس میں وَهُمْ : اور وہ فِيْهَا : اس میں لَا يُبْخَسُوْنَ : نہ کمی کیے جائیں گے (نقصان نہ ہوگا)
جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب وزینت کے طا لب ہوں ہم ان کے اعمال کا بدلہ انھیں دنیا ہی میں دے دیتے ہیں اور اس میں انکی حق تلفی نہیں کی جاتی۔
آیت نمبر 15 اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمانمن کا ن میں کا نزائدہ ہے، اسی وجہ سے جواب (شرط) مجزوم ہے۔ اللہ تعالیٰ مئ فرمایا : نوف الیھمیہ فراء کا قول ہے۔ زجاج نے کہا : من کانشرط کی وجہ سے محل جزم میں ہے اور اس کا جواب نوف الیھم ہے اس سے مرادمن تکن یرید ہے۔ لفظ پہلا ماضی ہے اورت دوسرا مضارع جس طرح زہیرنے کہا : ومن ھاب أسباب المنیۃ یلقھا ولو رام أسباب السماء لسلم جو موت کے اسباب سے بھاگا وہ اس کو ملے گا اگرچہ سیڑھی کے ذریعہ آسمان کے اسباب کا ہی قصد کیوں نہ کرے۔ استشھاد (اس میں ” ھاب “ ماضی ہے جب کہ لیقھاٰمضارع) اس آیت کی تاویل میں علماء کا اختلاف ہے، ایک قول یہ ہے یہ کفار کے بارے میں نازل ہوئی ہے یہ ضحاک نے کہا ہے اور نحاس نے اس کو اختیار کیا ہے اس کے بعد آنے والی آیت کی دلیل کی وجہ سے اولٰٓیک الذین لیس لھم فی الاٰخرۃ الا النار یعنی ان میں سے جس شخص نے صلہ رحمی اور صدقہ کیا ہم اس کو دنیا میں ہی جسمانی صحت اور کثرت رزق کے ذریعے اس کا بدلہ دیں گے لیکن آخرت میں اس کے لئے کوئی نیکی نہیں۔” سورة براۃ “ میں یہ معنی مکمل طور پر گزر چکا ہے۔ ایک قول یہ ہے آیت سے مراد مومنین ہیں، یعنی جس نے اپنے عمل کے ذریعے دنیا کے ثواب کا ارادہ کیا اسے جلدی ثواب دیا جائے گا اور دنیا میں کسی چیز کی کمی نہیں کی جائے گی اور آخرت میں اس کے لئے عذاب ہوگا کیونکہ اس کا ارادہ صرف دنیا کا تھا اور یہ (ایسے ہی ہے) جس طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا :” اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے “۔ پس بندے کو اس کے ارادے کے سبب اور اس کے ضمیر کے فیصلے پر عطا کیا جاتا ہے اور یہ ہر ملت میں تمام قوموں میں متفق علیہ بات ہے۔ ایک قول یہ ہے یہ ریا کاروں کے لیے ہے، حدیث طیبہ میں ہے کہ ریاکاروں کو کہا جائے گا :” تم نے روزہ رکھا، تم نے نماز پڑھی، تم نے صدقہ کیا، تم نے جہاد کیا اور تم نے تلاوت کی تاکہ تمہیں ایسا کہا جائے پس یہ کہہ دیا گیا “۔ آپ ﷺ نے فرمایا :” بیشک یہ پہلے لوگ ہوں گے جن پر آگ جلائی جائے گی “ (دوزخ میں ڈالے جائیں گے) اس کو حضرت ابوہریرہ ؓ نے روایت کیا پھر آپ بہت زیادہ روئے اور کہا : اللہ کے رسول ﷺ نے سچ فرمایا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : من کان یرید الحیوۃ الدنیا وزینتھا اور آپ نے دو آیتیں پڑھیں۔ امام مسلم نے اس کو اس کے معنی کے ساتھ اپنی صحیح (مسلم) میں روایت کیا اور ترمذی نے بھی روایت کیا۔ ایک قول یہ ہے کہ آیت ہر اس آدمی کے بارے میں عام ہے جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کی نیت کرتا ہے وہ مومن ہو یا نہ ہو۔ مجاہد اور میمون بن مہران نے یوں کہا ہے، اس جانب حضرت معاویہ گئے ہیں اور میمون بن مہران نے کہا : کوئی بھی آدمی اچھا عمل کرے تو اس کا پورا پورا ثواب دیا جاتا ہے پس اگر مخلص مسلمان ہو تو دنیا وآخرت (دونوں) میں (ثواب) دیا جاتا ہے اور اگر وہ کافر ہوتودنیاہی میں پورا بدلہ دیا جاتا ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ جو نبی کریم ﷺ کیساتھ غزوہ میں دنیا چاہتا ہے تو وہ اس کو دے دی جاتی ہے یعنی غازیوں والا اجر پورا دے دیا جاتا ہے اور اسمیں کوئی کمی نہیں کی جاتی (اس معنی کے اعتبار سے) یہ مخصوص ہے جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ اسمیں عموم ہے مسئلہ نمبر 2 ۔ بعض علماء نے کہا : اس آیت کا معنی نبی کریم ﷺ کا ارشاد : انما الاعمال بالنیات ہے یعنی اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس آدمی نے رمضان میں رمضان کے علاوہ (کوئی اور) روزہ رکھا تو وہ رمضان کا روزہ نہیں ہوگا اور یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس نے ٹھنڈک (کے حصول) اور نظافت کی خاطر وضو کیا تو وہ نماز کی طرف سے بطور قربت واقع نہ ہوگا اور اس طرح ہر وہ حکم جو اس معنی میں ہوا (اس کا یہی حکم ہے) (عندالمالکیتہ) ۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ اکثر علماء کے نزدیک یہ آیت مطلق ہے اور اس طرح سورة الشوریٰ والی آیتمن کان یرید حرث الاٰخرۃٍ نزدلہ فی حرثہ ۚ ومن کان یرید حرث الدنیا تؤتہٖ منھا الایۃ (الشوریٰ :20) اس طرحومن کان یرید حرث الدنیا نؤتہٖ منھا۔ سورة سبحان میں موجود آیتمن کان یرید العاجلۃ عجلنالہ فیھا مانشآء لمن نرید سے محظورًا۝(بنی اسرائیل :18 تا 20) کے ارشاد تک نے اس کی قید اور تفسیر بیان کی ہے۔ اللہ سبحانہ نے خبر دی کہ بندہ نیت اور ارادہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے فیصلہ فرماتا ہے۔ ضحاک نے حضرت ابن عباس ؓ سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد : من کان یرید الحیٰوۃ الدنیا کے بارے میں روایت کیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ارشادمن کان یریدالعاجلۃ (بنی اسرائیل :18) کے ذریعے منسوخ ہے اور صحیح وہ ہے جو ہم (قرطبی) نے ذکر کیا ہے اور اس کا تعلق اور تنقید کی بحث سے ہے۔ اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد : واذاسالک عبادی عنی فانی قریب ؕاجیب دعوۃ الداع اذادعان (البقرہ :186) بھی ہے اس کا ظاہر تو یہ ہے کہ ہر حال میں ہمیشہ ہر پکارنے والے کے جواب کے متعلق خبر ہے حالانکہ اس طرح نہیں ہے اللہ تعالیٰ کے ارشاد : فیکشف ماتدعون الیہ ان شاء (الانعام :41) کی وجہ سے۔ اور اخبار میں نسخ جائز نہیں ہوتا کیونکہ واجبات عقیلہ کی تبدیلی اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر جھوٹ محال ہے، جہاں تک احکام شرعیہ کے متلعق اخبار کا تعلق ہے تو ان کا نسخ جائز ہے اس میں اختلاف ہے جس طرح کہ اصول میں مذکوہ ہے اور اس کا بیان انشاء اللہ سورة النحل میں آئے گا۔
Top