Al-Qurtubi - Hud : 18
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا١ؕ اُولٰٓئِكَ یُعْرَضُوْنَ عَلٰى رَبِّهِمْ وَ یَقُوْلُ الْاَشْهَادُ هٰۤؤُلَآءِ الَّذِیْنَ كَذَبُوْا عَلٰى رَبِّهِمْ١ۚ اَلَا لَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الظّٰلِمِیْنَۙ
وَمَنْ : اور کون اَظْلَمُ : سب سے بڑا ظالم مِمَّنِ : اس سے جو افْتَرٰي : باندھے عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر كَذِبًا : جھوٹ اُولٰٓئِكَ : یہ لوگ يُعْرَضُوْنَ : پیش کیے جائیں گے عَلٰي رَبِّهِمْ : اپنے رب کے سامنے وَيَقُوْلُ : اور کہیں گے وہ الْاَشْهَادُ : گواہ (جمع) هٰٓؤُلَآءِ : یہی ہیں الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَذَبُوْا : جھوٹ بولا عَلٰي رَبِّهِمْ : اپنے رب پر اَلَا : یاد رکھو لَعْنَةُ اللّٰهِ : اللہ کی پھٹکار عَلَي : پر الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو خدا پر جھوٹ افتراء کرے ؟ ایسے لوگ خدا کے سامنے پیش کئے جائیں گے اور گواہ کہیں گے کہ یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ بولا تھا۔ سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے۔
آیت نمبر 18، 19 ومن اظلم ممن افترٰی علی اللہ کذبًا۔ یعنی ان لوگوں سے زیادہ اپنے اوپر ظلم کرنے والا کوئی نہیں کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹا بہتان باندھا ہے، انہوں نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو کسی اور کی طرف منسوب کیا اور یہ گمان کیا کہ وہ اس کا شریک اور بیٹا ہے۔ اور بتوں کے بارے میں کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پاس ان کے سفارشی ہیں۔ اولٰٓئک یعرضون علی ربھم۔ یعنی وہ ان کے اعمال پر ان کا محاسبہ کرے گا۔ صحیح مسلم میں حضرت ابو یونس ؓ کی نبی کریم ﷺ سے مروی روایت ہے :” اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے میرے بارے میں کسی یہودی اور نصرانی نے سنا پھر تعلیمات پر ایمان لائے بغیر مرگیا تو وہ دوزخی ہوگا “۔ فلاتک فی مریۃٍشک میں نہ ہوجاؤ۔ منہضمیر سے مراد قرآن کریم ہے۔ انہ الحق من ربک، حق سے مراد قرآن کریم ہے۔ یہ مقاتل نے کہا۔ کلبی نے کہا : معنی یہ ہوگا کہ کافر کے دوزخ میں ہونے میں شک نہ کرو۔ انہ الحق، مراد قول حق ہے۔ حطاب نبی کریم ﷺ کو ہے اور مراد تمام مکلفین ہیں۔ ویقول الاشھاد یعنی حفاظت کرنے والے فرشتے مجاہد وغیرہ سے مروی ہے۔ سفیان نے کہا : میں نے اعمش سے اشہباد کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا : اس سے مراد ملائکہ ہیں۔ ضحاک نے کہا : وہ انبیاء ومرسلین ہیں، ان کی دلیل اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی : فکیف اذا من کل امۃٍ بشھید وجئنابک علی ھٰٓؤلآء شھیدًا۝(النساء) ہے۔ اور ایک قول کے مطابق وہ فرشتے اور انبیاء ہیں اور وہ علماء ہیں جنہوں نے رسالت کی تبلیغ کی۔ حضرت قتادہ نے کہا : اس سے مراد ساری مخلوق ہے۔ صحیح مسلم میں صفوان بن محرزعن ابن عمر عن النبی ﷺ روایت ہے اس میں یہ الفاظ ہیں : جہاں تک کفار اور منافقین کا تعلق ہے تو لوگوں کے سامنے ان کے بارے میں یہ صدا لگائی جائے گی کہ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالیٰ پر کذب وافتراء سے کام لیا ہے۔ الا لعنۃ اللہ علی الظٰلمین یعنی جن لوگوں نے عبادت کو ایسے مقام پر رکھا جو عبادت کے لیے نہیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رحمت سے دور کردیا اور ان پر اپنا غضب نازل فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی : الذین یصدون عن سبیل اللہ یہ بھی ہوسکتا ہے۔ الذین، الظلمین کی صفت ہونے کی وجہ سے محل جر میں ہو۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ محل رفع میں ہو یعنی ھم الذین اور ایک قول یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خطاب کی ابتدا ہے، یعنی وہ لوگ جو اپنے آپکو اور دوسرے لوگوں کو ایمان اور اطاعت سے روکتے ہیں ویبغونھا عوجًا یعنی اس طریقے سے وہ لوگوں کو گناہ اور شرک کیطرف لے جاتے ہیں۔ وھم بالاٰخرۃ ھم کٰفرون، ھمضمیر کا اعادہ تاکیدا کیا گیا ہے۔
Top