بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - Hud : 1
الٓرٰ١۫ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰیٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ خَبِیْرٍۙ
الٓرٰ : الف لام را كِتٰبٌ : کتاب احْكِمَتْ : مضبوط کی گئیں اٰيٰتُهٗ : اس کی آیات ثُمَّ : پھر فُصِّلَتْ : تفصیل کی گئیں مِنْ : سے لَّدُنْ : پاس حَكِيْمٍ : حکمت والے خَبِيْرٍ : خبردار
الرا۔ یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم وخبیر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہیں۔
آیات نمبر 1 تا 4 اللہ تعالیٰ کا ارشاد الٓرٰ اس کے بارے میں گفتگو پہلے گزر چکی ہے۔ کتٰبٌسے مراد ھذا کتاب ہے۔ احکمت اٰیٰتہٗ یہ محل رفع میں ہے کتاب کی صفت ہے۔ احکمت اٰیٰتہٗ کے معنی کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے اس میں سب سے عمدہ قول حضرت قتادہ کا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اس سارے کے سارے کو محکم بنا دیا گیا ہے نہ اس میں کوئی خلل ہے اور نہ ہی یہ باطل ہے۔ الاحکام سے مراد کلام کا فساد سے محفوظ ہوتا ہے یعنی اس کی نظم، نظم محکم ہے نہ اس میں تناقض ہے اور نہ کوئی خلل۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ اس سے مراد ہے کہ کسی کتاب نے اس کو منسوخ نہیں کیا بخلاف تورات اور انجیل کے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ اس کی بعض آیات کو اس طرح مضبوط بنا دیا گیا ہے کہ وہ ناسخ تو ہیں منسوخ نہیں۔ اس بارے میں گفتگو پہلے ہوچکی ہے (ایتہ سے بعض آیات مراد لینے کی وضاحت کرتے ہیں) بعض اوقات اسم جنس کا اطلاق نوع پر بھی ہوتا ہے جیسے کہا جاتا ہے : اکلت طعام زید تو اس سے مراد زید کا بعض کھانا ہوتا ہے۔ حسن اور ابوالعالیہ نے کہا کہ اس کی آیات کو امر اور نہی کے ذریعے مضبوط بنایا گیا ہے۔ ثم فصلت یعنی وعدے، وعید، ثواب اور عقاب کے ساتھ اس کی وضاحت بیان کی گئی۔ قتادہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے باطل سے اس کو (محفوظ کرکے) پختہ کیا پھر حلال و حرام کے ساتھ اس کی وضاحت فرمائی (1) مجاہد نے کہا : اس کو مکمل طور پر مضبوط کیا گیا پھر توحید، نبوت، بعث بعدالموت اور دیگر عقائد پر حسب ضرورت دلیل کو ایک ایک آیت کرکے بیان کیا گیا، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ لوح محفوظ میں اس کو جمع کیا گیا پھر نزول میں تفریق کی گئی۔ اور ایک قول یہ ہے کہ فصلت سے مراد یہ ہے کہ ایک ایک آیت کرکے نازل کیا گیا تاکہ اسمیں غور وفکر کیا جاسکے۔ عکرمہ نے اس کو فصلت بصورت تخفیف پڑھا ہے۔ اس سے مراد ہوگا حکمت بالحق۔ من لدن، لدن بمعنی عند ہے۔ حکیم سے مراد امور کو پختہ کرنے والی ذات ہے اور خبیر سے مراد وہ ذات ہے جو باخبر ہے ہر اس کام سے جو ہوچکا اور جو نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : الا تعبدوالا اللہ کسائی اور فراء نے کہا کہ الا اصل میں بأ لّا ہے یعنی اس کو پختہ کیا گیا پھر اس کی تفصیل بیان کی گئی اس کے ساتھ کہ تم سوائے اللہ کے کسی کی عبادت نہ کرو۔ زجاج نے کہا کہ یہ لئلا ہے یعنی اس کو پختہ کیا گیا پھر اس کی تفصیل بیان کی گئی تاکہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو ارشاد فرمائیں کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ اِنَّنِیْ لَکُمْ مِّنْہُ ، منہ کی ہ ضمیر سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے یعنی اللہ سے۔ نَذِیْرٌ یعنی اس کی نافرمانی کرنے والے کو اس کے عذاب اور اس کی سطوت سے ڈرانے والا۔ بَشِیْرٌ اس کی اطاعت کرنے والے کو رضا اور جنت کی خوشخبری سنانے والا۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ اول و آخر اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں سے ہے یعنی تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو بیشک میں تمہیں اس سے ڈرانے والا ہوں، مراد یہ ہے کہ اللہ تمہیں غیر کی عبادت سے ڈرانے والا ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وَیُحَذِّرُ کُم اللہُ نَفْسَہٗ (آل عمران : 28) اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان : وَّ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ پہلے پر اس کا عطف ہے۔ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ یعنی اللہ کی طرف لوٹو اطاعت اور عبادت کے ساتھ۔ فراء نے کہا : یہاں ثُمَّ واؤ کے معنی میں ہے یعنی تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ کیونکہ استغفار ہی توبہ ہے اور توبہ ہی استغفار ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ تم اپنے پہلے گناہوں سے استغفار کرو اور نئے گناہ سے اس کی بارگاہ میں توبہ کرو جب تم سے سرزد ہو۔ بعض صلحاء نے کہا کہ گناہ کو چھوڑے بغیر استغفار کرنا یہ جھوٹے لوگوں کی توبہ ہے۔ یہ معنی مکمل طور پر سورة آل عمران میں گزرچکا ہے۔ اور سورة بقرہ میں ولا تتخذوٓا اٰیت اللہ ھزوا (البقرۃ :231) کے تحت گزر چکا ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے استغفار کے ذکر کو مقدم فرمایا ہے کیونکہ مغفرت غرض مطلوب ہے اور توبہ اس کا سبب ہے پس مغفرت مقصود میں اوّل ہے جبکہ سبب میں آخر۔ اور یہ احتمال بھی ہے کہ اسکا معنی یہ ہو کہ تم صغیرہ گناہوں سے استغفار کرو اور کبیرہ گناہوں سے توبہ کرو۔ یمتعکم متاعا حسنایہ استغفار اور توبہ کا ثمر ہے یعنی وہ تم کو رزق کی وسعت اور زندگی کی خوشحالی سے منافع کے ذریعے لطف اندوز کرے گا اور تمہیں عذاب کے ذریعے جڑ سے نہیں اکھیڑے گا جس طرح اس نے ان کے ساتھ کیا جن کو اس نے تم سے پہلے ہلاک کردیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اور توبہ کا ثمر ہے یعنی وہ تم کو رزق کی وسعت اور زندگی کی خوشحالی سے منافع کے ذریعے لطف اندوز کرے گا اور تمہیں عذاب کے ذریعے جڑ سے نہیں اکھیڑے گا جس طرح اس نے ان کے ساتھ کیا جن کو اس نے تم سے پہلے ہلاک کردیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یمتعکم سے مراد یہ ہے کہ وہ تم کو عمر دے گا۔ الامتاع کی اصل لمبا کرنا ہے (طوالت دینا) ہے۔ اس سے امتع اللہ بک ومتع بہ (درازی عمر کی دعا) ہے۔ سہل بن عبداللہ نے کہا المتاع الحسن مخلوق کو ترک کرنا اور حق کی طرف توجہ دینا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد موجود پر قناعت کرنا اور مفقود پر پریشانی کو ترک کرنا ہے۔ الٰی اجل مسمی ایک قول یہ ہے کہ اجل مسمی سے مراد موت ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد قبر اور اس کے علاوہ قیامت کی ہولناکیوں اور قیامت میں خوف دلانے والے امور اور ہر ناپسندیدہ چیز سے بچانا ہوگا۔ پہلا معنی (یعنی موت) زیادہ ظاہر ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی وجہ سے ویٰقوم استغفروا ربکم ثم توبوا الیہ یرسل السماء علیکم مدرارًاویزدکم قوۃ الٰی قوتکم یہ (معاملہ) موت کی وجہ سے ختم ہوگا اور یہی اجل مسمی ہے۔ واللہ اعلم۔ مقاتل نے کہا کہ انہوں نے انکار کیا پس رسول اللہ ﷺ نے ان کے خلاف دعا کی وہ سات سال قحط میں مبتلا ہوگئے یہاں تک کہ انہوں نے جلی ہوئی ہڈیاں، گندگی، مردار اور کتوں کو کھایا۔ ویوت کل ذی فصل فضلہ یعنی وہ نیک اعمال میں سے ہر صاحب عمل کو اس عمل کی جزا دے گا۔ اور ایک قول کے مطابق اس سے مراد یہ ہے کہ ہر وہ بندہ جس کی نیکیاں اس کی برائیوں پر فضیلت پاگئیں اس کو وہ اپنا فضل یعنی جنت دے گا اور یہی اللہ کا فضل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فضلہٗ میں ہ ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے۔ مجاہد نے کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے کلام میں سے جو وہ اپنی زبان سے کرتا ہے یا عمل میں سے جو وہ اپنے ہاتھ یا پاؤں کے ذریعے کرتا ہے جس کو شمار کرتا ہے یا اپنے مال میں سے جس بطور صدقہ دیتا ہے پس وہ اللہ کا فضل ہے۔ وہ اس کو (اس کا اجر) دیتا ہے اگر وہ ایمان لائے اور اس کو وہ اس کی طرف سے قبول نہیں کرتا اگر وہ کافر ہو تو وان تولوافانی اخاف علیکم عذاب یومٍ کبیر۔ یومٍ کبیرٍسے مراد قیامت کا دن ہے۔ یہ دن بڑا ہوگا اس میں واقع ہونے والی ہولناکیوں کی وجہ سے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد یوم بدر (1) اور اس کے علاوہ (غزوات کے ایام) ہیں۔ وتولوایہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ ماضی کا صیغہ ہو اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ اگر وہ روگرداں رہے تو آپ ان کو فرمادیں کہ میں تم پر اندیشہ کرتا ہوں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ مضارع کا صیغہ ہو اور اس کی ایک تاکو حذف کردیا گیا ہو پھر معنی یہ ہوگا کہ آپ ان کو فرمادیں کہ اگر تم نے روگردانی کی تو میں تم پر اندیشہ کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : الی اللہ مرجعکم یعنی موت کے بعد، وھو علٰی کل شی ءٍ قدیر یعنی ثواب اور عقاب میں سے ہر چیز پر وہ قادر ہے۔
Top