Al-Qurtubi - Hud : 28
قَالَ یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ اٰتٰىنِیْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِهٖ فَعُمِّیَتْ عَلَیْكُمْ١ؕ اَنُلْزِمُكُمُوْهَا وَ اَنْتُمْ لَهَا كٰرِهُوْنَ
قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اَرَءَيْتُمْ : تم دیکھو تو اِنْ : اگر كُنْتُ : میں ہوں عَلٰي : پر بَيِّنَةٍ : واضح دلیل مِّنْ رَّبِّيْ : اپنے رب سے وَاٰتٰىنِيْ : اور اس نے دی مجھے رَحْمَةً : رحمت مِّنْ عِنْدِهٖ : اپنے پاس سے فَعُمِّيَتْ : وہ دکھائی نہیں دیتی عَلَيْكُمْ : تمہیں اَنُلْزِمُكُمُوْهَا : کیا ہم وہ تمہیں زبردستی منوائیں وَاَنْتُمْ : اور تم لَهَا : اس سے كٰرِهُوْنَ : بیزار ہو
انہوں نے کہا کہ اے قوم ! دیکھو تو اگر میں اپنے پروردگار کی طرف دلیل (روشن) رکھتا ہوں اور اس نے مجھے اپنے ہاں سے رحمت بخشی ہو جس کی حقیقت تم سے پوشیدہ رکھی گئی ہے تو کیا ہم اس کے لئے تمہیں مجبور کرسکتے ہیں ؟ اور تم ہو کہ اس سے ناخوش ہو رہے ہو۔
آیت نمبر 28 تا 31 قولہ تعالیٰ : قال یقوم اریتم ان کنت علیٰ بینۃٍ من ربی یعنی یقین پر، یہ ابوعمران جونی کا قول ہے۔ اور ایک قول کے مطابق اس کا معنی یہ ہے کہ معجزہ پر سورة انعام میں یہ معنی گزر چکا ہے۔ واٰتٰئنی رحمۃً من عبدہٖرحمت سے مراد نبوت و رسالت ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ یہ (نبوت و رسالت) مخلوق پر رحمت ہے۔ اور ایک قول کے مطابق رحمت سے مراد دلائل کے ساتھ اللہ کی طرف ہدایت دینا ہے۔ اور ایک قول کے مطابق اس سے مراد ایمان اور اسلام ہے۔ فعبیت علیکم یعنی رسالت اور ہدایت تم سے پوشیدہ ہوگئی ہو اور تم اسے سمجھ سکے ہو۔ عمیت عن کذا اور عمی علی کذا کہا جاتا ہے یعنی میں اسے نہ سمجھ سکا۔ اور معنی رحمت کا پوشیدہ ہونا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ قلب ہے کیونکہ رحمت پوشیدہ نہیں ہوتی بلکہ اس سے پوشیدہ یا اندھا ہوا جاتا ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے آپ کا قولادخلت فی القلنسودراسی یعنی میں نے ٹوپی میں اپنا سر داخل کیا اور موزا میرے پاؤں میں داخل ہوا۔ اعمش، حمزہ اور کسائی نے اسے فعمیت عینکے ضمہ اور میم کی شد کے ساتھ پڑھا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے تمہارے اوپر پوشیدہ کردیا۔ ابی کی قراءت بھی اسی طرح ہے۔ فعماھا اس کو ماوردی نے ذکر کیا ہے۔ انلزمکموھا ایک قول کے مطابق اس دعوت سے مراد لآ الہ الا اللہ کی شہادت ہے۔ اور ایک قول یہ بھی کہ ہا ضمیر رحمت کی طرف راجع ہے۔ اور ایک قول کے مطابق یہ بینۃ کی طرف راجع ہے، یعنی کیا ہم اس کو قبول کرنے پر تمہیں مجبور کریں اور اس کو تمہارے اوپر لازم کریں ؟ یہ استفہام انکار ہے۔ یعنی مجھے اس بات پر قدرت نہیں دی گئی کہ میں تمہیں اس کی معرفت پر مجبور کروں۔ اس قول کے ذریعے حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان کی تردید کرنے کا قصد فرمایا ہے۔ کسائی اور فراء نے اسےأنلزمکموھاپہلی میم کے سکون کے ساتھ حکایت کیا ہے اور سیبویہ نے ایسا جائز قرار دیا ہے۔ اس نے شعر پڑھا : فالیوم اشرت غیر مستحقب إثما من اللہ ولا واغل نحاس نے کہا : حضرت یونس (علیہ السلام) کے قول کے مطابق قرآن کے علاوہ انلزمکمھا بھی جائز ہے مضمر کو مظہر کی جگہ رکھتے ہوئے۔ جس طرح آپ کہتے ہیں انلزمکم ذالک، وانتم لھا کٰرھون یعنی تمہارا اسے ناپسند کرتے ہوئے قبول کرنا صحیح نہیں ہوگا۔ حضرت قتادہ نے کہا : اللہ کی قسم ! اگر اللہ کے نبی حضرت نوح (علیہ السلام) استطاعت رکھتے ہوتے تو ضرور اسے اپنی قوم پر لازم کرتے، لیکن وہ اس کے مالک نہ تھے۔ دعوت اور اس پر ایمان لانے پر اجر یعنی ” مالا “ مال (کا تم سے سوال نہیں کرتا) کہ تم پر بوجھ کا سبب نبے۔ ان اجری الا علی اللہ یعنی تبلیغ رسالت میں میرا ثواب اللہ کے ذمہ کرم میں ہے۔ ومآانابطاردالذین اٰمنوا انہوں نے آپ کو کہا کہ آپ ان گھٹیا لوگوں کو نکال دیں جو آپ پر ایمان لائے، جس طرح قریش نے نبی کریم ﷺ کو کہا کہ آپ غلاموں اور فقروں کو نکال دیں۔ جس طرح سورة الانعام میں اس کا بیان گزرچکا، تو آپ نے ان کو اپنے اس قول کے ساتھ جواب دیا : ومآانابطاردالذین اٰمنو انھم ملقواربھم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ نے ان کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملاقات کو عظیم قرار دیتے ہوئے یہ کہا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ علی وجہ الاختصام (بطور جھگڑا) یہ کہا۔ یعنی اگر میں ایسا کروں تو وہ اللہ کے ہاں میرے ساتھ جھگڑیں گے پس وہ ان کو ان کے ایمان پر جزادے گا اور وہ اسے بھی جزا دے گا جس نے ان کو نکال دیا۔ ولٰکنیٓ ارٰئکم قومًاتجھلون۝ ان کو گھٹیا سمجھنے میں اور ان کے نکال دینے کا مطالبہ کرنے میں میں نے تمہیں جاہل قوم سمجھا۔ قولہ تعالیٰ : ویٰقوم من ینصرنی من اللہ فراء نے کہا : یعنی جو اس کے عذاب کو مجھ سے روکے گا۔ ان طردتھم یعنی ان کے ایمان کی وجہ سے افلا تذکرون تاکو ذال میں مدغم کیا گیا۔ اس کو حذف کرنا بھی جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ولآاقول لکم عندی خزآئن اللہ ولا اعلم الغیب آپ نے اللہ تعالیٰ کے لیے اپنی عاجزی اور تواضع کی خبر دی اور اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے ان کے پاس نہیں اس کا دعویٰ نہیں کرتے۔ اور یہ اللہ کا انعام ہے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اور یہ کہ وہ غیب نہیں جانتے کیونکہ غیب کو وہ نہیں جانتے سوائے اللہ تعالیٰ کے۔ ولآاقول انی ملک یعنی میں نہیں کہتا کہ لوگوں کے ہاں میرا مقام فرشتوں جیسا ہے اور علماء نے کہا : کلام میں اس بات پر دلالت ہے کہ ملائکہ انبیاء سے افضل ہیں اطاعت میں ان کے دوام اور قیامت تک ان کی عبادت کے اتصال کی وجہ سے۔ صلوات اللہ علیھم اجمعین۔ سورة البقرہ میں یہ معنی گزر چکا ہے۔ ولآاقول للذین تزدریٓ اعینکم یعنی جن کو تمہاری آنکھیں تاء سے بدلی ہوئی ہے کیوں کہ تزدری میں اصل تزتری ہے، مگر ” زا “ کے بعد تا کو دال سے بدل دیا گیا، کیونکہ ” زا “ مجہورہ ہے اور تا مہموسہ پس تا کو اس کے ہم مخرج حرف مجہور کے ساتھ بدل دیا گیا۔ اور کہا جاتا ہے : أزریت علیہجب تو اس کو عیب لگائے اور زریت علیہ (کہا جاتا ہے) جب تو اس کو حقیر خیال کرے۔ فراء نے شعر پڑھا : یباعدہ الصدیق و تزدریہ حلیلتہ وینھرہ الصغیر دوست اس کو دور کرتا ہے اور اس کی بیوی اسے حقیر سمجھتی ہے اور چھوٹا اس کو جھڑکتا ہے۔ (وجہ استشہاد تزدریہ ہے) لن یؤتیھم اللہ خیرًا یعنی تمہارا ان کو حقیر سمجھنا ان کے اجروں کو باطل نہیں کرتا یا ان کے ثواب کو کم نہیں کرتا، اللہ اعلم بما فیٓ انفسھم، پس وہ ان کو اس پر جزا دے گا اور اس سے ان کا مواخذہ فرمائے گا۔ انیٓ اذًالمن الظلمین یعنی اگر میں وہ کہوں جس کا ذکر گزرچکا ہے۔ اذًا، ملغیٰ عن العمل ہے، کیونکہ یہ درمیان کلام میں ہے۔
Top