Al-Qurtubi - Hud : 32
قَالُوْا یٰنُوْحُ قَدْ جٰدَلْتَنَا فَاَكْثَرْتَ جِدَا لَنَا فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ
قَالُوْا : وہ بولے يٰنُوْحُ : اے نوح قَدْ جٰدَلْتَنَا : تونے جھگڑا کیا ہم سے فَاَكْثَرْتَ : سو بہت جِدَالَنَا : ہم سے جھگڑا کیا فَاْتِنَا : پس لے آ بِمَا تَعِدُنَآ : وہ جو تو ہم سے وعدہ کرتا ہے اِنْ : اگر كُنْتَ : تو ہے مِنَ : سے الصّٰدِقِيْنَ : سچے (جمع)
انہوں نے کہا کہ نوح تم نے ہم سے جھگڑا کیا اور جھگڑا بھی بہت کیا لیکن اگر سچے ہو تو جس چیز سے ہمیں ڈراتے ہو وہ ہم پر نازل کرو۔
آیت نمبر 32 تا 35 اللہ تعالیٰ کا ارشاد : قالوایٰنوح قدجٰدلتنافاکثرت جدالنا یعنی تو نے ہمارے ساتھ جھگڑے کو طول دیا اور اس میں مبالغہ کیا۔ جدل کلام عرب میں جھگڑے میں مبالغہ کے لیے (استعمال ہوتا) ہے۔ الجدل سے مشتق ہے اور یہ رسی کو مضبوطی سے بنانا (بٹنا) ہے۔ شکرے کو بھی اجدل کہا جاتا ہے اڑنے میں اس کی سختی کی وجہ سے۔ یہ معنی سورة الانعام میں اس سے زیادہ واضح طریقے سے گزرچکا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فاکثرت جدالناپڑھا ہے، نحاس نے اس کو ذکر کیا۔ دین میں جدال کرنا محمود ہے اسی وجہ سے حضرت نوح (علیہ السلام) اور دیگر انبیاء (علیہم السلام) نے اپنی قوموں سے جدال کیا یہاں تک حق غالب ہوجائے پس جس نے اس کو قبول کیا وہ کامیاب اور کامران ہوگیا اور جس نے اس کو رد کیا وہ ناکام اور نامراد ہوگیا اور ناحق جدال کرنا تاکہ باطل کو غلبہ ہو مذموم ہے اور ایسا جدال کرنے والا دنیا وآخرت میں ملامت کیا جاتا ہے۔ فاتنا بما تعدنآ یعنی عذاب سے۔ ان کنت من الصدقین یعنی اپنے قول میں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : قال انما یاتیکم بہ اللہ ان شآء یعنی اگر اس نے تمہاری ہلاکت کا ارادہ کیا تو وہ تمہیں عذاب دے گا۔ ومآانتم بمعجزیناس معجزین کا معنی فائتین ہے۔ ایک قول یہ ہے تم اپنی کثرت کی وجہ سے غالب نہیں ہو، کیونکہ وہ اس وجہ سے تکبر کرتے تھے، انہوں نے زمین کے میدانوں اور پہاڑوں کو بھر دیا تھا جس طرح کہ بعد میں آئے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ولاینفعکم نصحٓی یعنی میری تبلیغ اور کوشش تمہارے ایمان میں۔ ان اردت ان انصح لکم یعنی اس وجہ سے کہ تم کو بطور نصیحت قبول نہیں کرتے۔ سورة براءۃ میں نصح کا لغوی معنی گزرچکا ہے۔ ان کان اللہ یریدان یٖویکم یعنی یہ کہ وہ تمہیں گمراہ کرے، اور یہ معتزلہ قدریہ اور ان کے موافق مذہب رکھنے والے کے مذہب کے بطلان پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ ان کا گمان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ کوئی نافرمانی کرنے والا نافرمانی کرے، کفر کرنے والا کفر کرے اور کوئی گمراہ گمراہی کرے اور جو ایسا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا ارادہ نہیں فرماتا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے ان کی تردید فرما دی کہ ان کان اللہ یرید ان یغویکم یہ معنی سورة الفاتحہ میں اور اس کے علاوہ (دیگر سورتوں) میں گزرچکا ہے، اور ان کے شیخ لعین ابلیس نے اپنی گمراہی کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرففبما اغویتنیکے ذریعے کرکے ان کی تکذیب کردی ہے۔ اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے ارشاد : ان کان اللہ یریدان یغویکم سے تو ان کے لیے کوئی مفرہی نہیں کہ آپ نے ان کی گمراہی کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا، کیونکہ وہی ہدایت دینے والا اور گمراہ کرنے والا ہے جو کچھ منکر اور ظالم کہتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے پاک اور بہت بڑا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ ان یغویکم سے مراد یہ ہے کہ وہ تمہیں ہلاک کرے گا، کیونکہ گمراہی ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے۔ طبری نے کہا : ان یغویکم سے مراد یہ ہے کہ وہ تمہیں ہلاک کرے گا اپنے عذاب کے ذریعے، طیئ سے بیان کیا گیا : اصبح فلان غادیا یعنی مریض ہوگیا اورأغویتہ سے مراد ہے میں نے اس کو ہلاک کردیا، اور اسی سے ہے فسوف یلقون غیًا۝(مریم) ھوربکمپس اسی کی طرف سے گمراہی ہے اور اسی کی طرف سے ہدایتوالیہ ترجعونیہ دھمکی اور وعید ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ام یقولون افترٰئہ اس سے وہ نبی کریم ﷺ کی ذات مراد لیتے ہیں، افتریباب افتعال ہے۔ یعنی اس نے قرآن اپنی طرف سے بنالیا، اور جو اس کے ذریعے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے متعلق خبر دی ہے (وہ بھی اپنی طرف سے بنالی ہے) مقاتل نے یہ کہا۔ حضرت ابن عباس رضی ابن عباس ؓ نے کہا : یہ حضرت نوح (علیہ السلام) کا اپنی قوم کے لئے محاورہ ہے۔ اور یہی زیادہ ظاہر ہے، کیونکہ اس سے پہلے اور بعد صرف حضرت نوح (علیہ السلام) اور آپ کی قوم ہی کا ذکر ہے، پس خطاب انہی کی طرف سے اور ان کے لیے ہے۔ قل ان افتریتہ یعنی اگر میں وحی اور رسالت کو (اپنی طرف سے) بنالوں۔ فعلی اجرامیتو میرے جرم کی سزا مجھ پر ہے اور اگر میں اپنی گفتگو میں سچا ہوں تو تم پر میری تکذیب کی سزا ہوگی۔ الاجرام، اجرمکامصدر ہے اور اس سے مراد گناہ کا ارتکاب کرنا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ معنی یہ ہے : میرے جرم اور میرے عمل کی جزا مجھ پر ہے اور جرم اور أجرمکا ایک ہی معنی ہے۔ نحاس اور اس کے علاوہ سے ہے انہوں نے کہا : طرید عشیرۃٍ ورھین جرمٍ بما جرمت یدی و جنی لسانی جس نے أجرامیہمزہ کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے وہ اس جانب گیا ہے کہ یہ جرم کی جمع ہے، نحاس نے بھی اس کو ذکر کیا ہے۔ وانابریٓء مماتجرمون یعنی کفر اور تکذیب میں سے۔
Top