Al-Qurtubi - Hud : 45
وَ نَادٰى نُوْحٌ رَّبَّهٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَهْلِیْ وَ اِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَ اَنْتَ اَحْكَمُ الْحٰكِمِیْنَ
وَنَادٰي : اور پکارا نُوْحٌ : نوح رَّبَّهٗ : اپنا رب فَقَالَ : پس اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اِنَّ : بیشک ابْنِيْ : میرا بیٹا اَهْلِيْ : میرے گھروالوں میں سے وَاِنَّ : اور بیشک وَعْدَكَ : تیرا وعدہ الْحَقُّ : سچا وَاَنْتَ : اور تو اَحْكَمُ : سب سے بڑا حاکم الْحٰكِمِيْنَ : حاکم (جمع)
اور نوح نے اپنے پروردگار کو پکارا اور کہا کہ پروردگار ! میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے (تو اسکو بھی نجات دے) تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بہتر حاکم ہے۔
آیت نمبر 45 تا 47 اس میں پانچ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ونادٰی نوح ربہ یعنی اس نے اس (اللہ) سے دعا کی۔ فقال رب ان ابنی من اھلی یعنی میرے ان اہل میں سے جن کے غرق سے نجات کا تو نے وعدہ فرمایا ہوا ہے، پس کلام میں حذف ہے۔ وان دعدک الحق یعنی سچا۔ ہمارے علماء نے کہا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب سے اپنے بیٹے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد واھلک کی وجہ سے سوال کیا اور اللہ تعالیٰ کے ارشادالا من سبق علیہ القولکو ترک کردیا۔ جب ان کے نزدیک وہ انکے اہل سے تھا تو عرض کیا : رب ان ابنی من اھلیاس بات پر ان کا قولولاتکن مع الکٰفرین۔ دلالت کرتا ہے، یعنی تو ان میں سے نہ ہوجا جن سے تو نہیں ہے کیونکہ وہ آپ کے گمان کے مطابق مومن تھا اور حضرت نوح (علیہ السلام) اپنے رب کو ان ابنی من اھلیکہنے والے نہیں تھے مگر وہ ان کے نزدیک ایسا ہی تھا، کیونکہ یہ تو محال ہے کہ آپ کفار کی ہلاکت کا سوال کریں پھر ان میں سے بعض کی نجات کا بھی سوال کریں، آپ کا بیٹا کفر کو چھپاتا اور ایمان کو ظاہر کرتا تھا، پس اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو خبر دی جو علم غیب میں سے اس کے ساتھ خاص تھی یعنی تمہارے بیٹے کی حالت کو جانتا ہوں جو تو نہیں جانتا۔ حضرت حسن ؓ نے کہا : وہ منافق تھا اسی لیے حضرت نوح (علیہ السلام) نے اس کے لیے دعا مانگنے کو جائز سمجھا۔ اور ان ہی سے روایت ہے : یہ ان کی بیوی کا بیٹا تھا، اس کی دلیل حضرت علی ؓ کی قراءت ہے کہ ونادی نوح ابنھاوانت احکم الحٰکمینیہ مبتدا اور خبر ہے یعنی تو نے ایک قوم کی نجات اور ایک قوم کے غرق کا حکم فرمایا۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : قال یٰنوح انہ لیس من اھلک یعنی یہ ترے ان اہل میں سے نہیں جن کی نجات کا میں نے ان سے وعدہ فرمایا، یہ حضرت سیعد بن جبیر کا قول ہے۔ جمہور نے کہا : یہ ترے دین اور نہ ہی تیری ولایت کا اہل ہے، تو یہ (ترجمہ) مضاف کے حذف کی صورت میں ہوگا (یعنیاھل دینک ودلایتک) اور یہ اس بات پر دلیل ہے کہ دین میں متفق ہونے کا حکم کی نسب کے حکم کی سبت زیادہ مضبوط ہے۔ انہ عمل غیرصالححضرت ابن عباس، حضرت عروہ، عکرمہ، یعقوب اور کسائی نے اس کو ” انہ عمل غیرصالح “ پڑھا ہے۔ یعنی کفر اور تکذیب وغیرہ۔ ابوعبید نے اسی کو اختیار کیا ہے اور باقی لوگوں نے عملپڑھا ہے یعنی تیرا بیٹا غیر صالح والا ہے ابنک ذوعمل غیر صالحمضاف کو حذف کردیا گیا، یہ زجاج اور دیگر کا قول ہے۔ شاعر نے کہا : ترتع ما رتعت حتی إذا اد کرت فإنما ھی إقبال و ادبار یعنیذات اقبال وادبار، یہ قول اور جو اس سے قبل ہے ایک ہی معنی کی طرف راجع ہیں۔ یہ بھی جائز ہے کہ انہ کی ضمیر موال کے لیے ہو یعنی بیشک تیرا مجھ سے اس کی نجات کا موال کرنا عمل صالح ہے۔ یہ قتادہ کا قول ہے، حضرت حسن ؓ نے کہا ہے : عمل صالح کا معنی یہ ہے کہ پیدا آپ کے فراش میں ہوا، حالانکہ آپ کا بیٹا نہیں، اور یہ ناجائز شادی کا تھا، مجاہد کا بھی یہی قول ہے۔ حضرت قتادہ نے کہا کہ میں نے حضرت حسن ؓ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کہا : اللہ تعالیٰ کی قسم ! وہ ان کا بیٹا نہ تھا۔ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرف سے خبر دی کہ انہوں نے کہا : ان ابنی من اھلیتو انہوں (حسن) نے کہا : آپ (نوح) نے ” منی “ نہیں کہا اور یہ اشارہ ہے اس طرف کہ یہ ان کی بیوی کا بیٹا تھا کسی اور خاوند سے، تو میں نے کہا کہ الللہ تعالیٰ نے اس کو حضرت نوح (علیہ السلام) سے حکایت کیا کہ انہوں نے کہا : ان ابنی من اھلی، ونادٰی نوحۨ ابنہ اور اہل کتاب کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ وہ ان کا بیٹا تھا، تو حسن ؓ نے کہا : کون شخص اہل کتاب سے اپنا دین لیتا ہے، وی تو جھوٹے ہیں، وہ تو جھوٹے ہیں اور انہوں نے پڑھافخانتاھما (کہ ان دونوں نے خیانت کی) ابن جریج نے کہا : حضرت نوح (علیہ السلام) نے اس کو بلایا اور ان کا گمان یہ تھا کہ یہ ان کا بیٹا ہے اور وہ آپ کے فراش پر پیدا ہوا اور اس معاملے میں ان کی بیوی نے ان کے ساتھ خیانت کی۔ اسی وجہ سے فرمایا : فخانتا ھما۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : کسی نبی کی بیوی نے کبھی بھی بغاوت (بدکاری) نہیں کی، وہ آپ کا اصلی بیٹا تھا۔ حضرت سعید بن جبیر کو کہا گیا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کہتے ہیں : ان انبی من اھلی کیا وہ آپ کے اہل سے تھا ؟ کیا وہ آپ کا صلبی بیٹا تھا ؟ تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی لمبی تسبیح کی پھر فرمایا : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اللہ تعالیٰ محمد ﷺ سے کلام فرماتا ہے کہ وہ ان کا بیٹا ہے، اور تو کہتا ہے کہ وہ ان کا بیٹا نہیں۔ ہاں وہ ان کا بیٹا تھا، لیکن وہ نیت، عمل اور دین میں مخالف تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : انہ لیس من اھلک اور اللہ تعالیٰ یہ قول کرنے والے کی جلالت کی وجہ سے اس باب میں زیادہ صحیح ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد : انہ لیس من اھلکیہ ان اقوال میں سے نہیں جن کے ذریعے اس کے ان کا بیٹا ہونے کی نفی کی جائے۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد : فخانتاھما یعنی دین میں (خیانت کی) نہ کہ فراش میں، اور یہ اس وجہ سے کہ وہ لوگوں کو بتاتی تھی کہ یہ مجنون ہے، اور اس وجہ سے کہ اس نے آپ کو کہا : کیا تیرا رب تیری مدد کرے گا ؟ آپ نے اسے فرمایا : ہاں۔ اس نے کہا : کب ؟ آپ نے فرمایا جب تنور ابل پڑے گا، تو وہ اپنی قوم کو یہ کہتے ہوئے نکل کھڑی ہوئی : اے قوم ! اللہ کی قسم یہ مجنون ہے، یہ گمان کرتا ہے کہ اس کا رب اس تنور کے ابل پڑنے سے اس کی مدد کرے گا۔ پس یہ اس کی خیانت ہے اور دوسری خیانت یہ ہے کہ وہ مہمانوں کے خلاف رہنمائی کرتی تھی جس طرح کہ عنقریب آئے گا اگر اللہ نے چاہا تو۔ واللہ علم۔ ایک قول یہ ہے ولد بعض اوقات عمل کو بھی کہتے ہیں جس طرح کہ کسب کو کہا جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے :” تمہاری اولاد تمہارے کسب سے ہے “۔ قشیری کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ اس آیت میں مخلوق کو ان کی اولادوں کے فساد کے بارے میں تسلی دینا (مقصود) ہے اگرچہ وہ (خود) نیکو کار ہی کیوں نہ ہوں۔ روایت ہے کہ حضرت مالک بن انس ؓ اوپر سے اترے اور آپ کے پاس ایک حمام تھا جس نے آپ کو ڈھانپا ہوا تھا۔ روای نے کہا حضرت مالک کو پتہ چل گیا کہ لوگ اس کو سمجھ گئے ہیں، تو حضرت مالک نے کہا : ادب اللہ کا ادب ہے نہ کہ والدین کا ادب اور بھلائی اللہ کی بھلائی ہے نہ کہ آباء اور امہات کی بھلائی۔ اس میں اس بات پر بھی دلیل ہے کہ بیٹا اہل اور اہل بیت میں سے ہے لغوی اور شرعی طور پر، پس جس نے اپنے اہل کے لیے وصیت کی تو اس میں اس کا بیٹا بھی داخل ہوگا اور وہ بھی داخل ہوگا جس کو اس کا گھر اپنے اندر لیے ہوئے ہو، اس حال میں کہ وہ اس کے عیال میں ہو۔ ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ولقدنادٰئنانوح فلنعم المجیبون۔ (الصافات) فنجینٰہ واھلہ من الکرب العظیم (الانبیاء) وہ تمام لوگ جنکو انان گھر اپنے اندر لیے ہوئے تھا انکو اللہ تعالیٰ نے ان کا اھل فرمایا ہے۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ حسن، مجاہد اور ان کے علاوہ کے قول کے مطابق آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بچہ فراش کے لیے ہوتا ہے۔ اس وجہ سے حضرت نوح (علیہ السلام) نے جو کچھ کہا فراش کے ظاہر کو دیکھتے ہوئے کہا۔ سفیان بن عیینہ نے عمرو بن دینار سے تو روایت کیا ہے کہ انہوں نے حضرت عبید بن عمیر کو کہتے ہوئے سنا : ہم نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے کی وجہ سے فیصلہ فرمایا کہ بچہ فراش کے لیے ہے، اس کو ابو عمر نے کتاب ” التمہید “ میں ذکر کیا۔ نبی کریم ﷺ سے حدیث صحیح میں ہے کہ آپ نے فرمایا :” بچہ فراش کے لیے ہے اور زانی کے لیے حجر ہے “۔ حجر سے مراد ناکامی ونامرادی ہے، اور کہا گیا : (اس سے مراد) پتھر سے رجم کرنا ہے۔ عروۃ بن زبیر نے پڑھا۔ ونادی نوح ابنھا اس سے مراد آپ (نوح) کی بیوی کا بیٹا ہے، اور آپ سے اور حضرت علی ؓ سے مروی گزشتہ قراءت کی تفسیر ہے۔ اور یہ حسن اور مجاہد کے لیے حجت ہے مگر یہ قراءت شاذہ ہے اس کی وجہ سے ہم متفق علیہ قراءت کو ترک نہیں کریں گے۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر 5 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : انیٓ اعظک ان تکون من الجٰھلین یعنی میں تجھے اس سوال سے روکتا ہوں اور تم کو ڈراتا ہوں کہ تم نہ ہوجاؤ (جاہلین میں سے) یا (اس بات کو) ناپسند کرتے ہوئے کہ آپ ہوجائیں جاہلین یعنی گناہ گاروں میں سے۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد : یعظکم اللہ ان تعودوالمثلہٓ ابدًا (النور :17) یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں ڈرانا ہے اور روکتا ہے۔ کہا گیا : معنی یہ ہے کہ تمہیں اس بات سے بلند کردوں گا تو جاہلین میں سے ہو۔ ابن عربی نے کہا : یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اضافہ اور نصیحت ہے جس کے ذریعے وہ حضرت نوح (علیہ السلام) کو جاہلین کے مقام سے اٹھاتا ہے اور اس کے ذریعے ان کو علماء اور عارفین کے مقام پر بلند فرماتا ہے۔ پس حضرت نوح (علیہ السلام) نے عرض کیا : رب انیٓ اعوذبک ان اسئلک مالیس لی بہٖ علم اور یہ انبیاء کے ذنوب ہیں۔ تو آپ نے اپنے تذلل اور تواضع کا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکرادا کیا۔ والاتغفرلیجو سوال کی وجہ سے زیادتی ہو۔ ترحمنی یعنی توبہ کے ذریعے۔ اکن من الخٰسرین یعنی ازروئے اعمال کے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یٰنوح اھبط بسلٰمٍ منا۔
Top